پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں اس لئے ہے کیوں کہ امریکہ اس پر دباؤ برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ آئی ایف ایم کے شوکت ترین کے ساتھ کسی پیکج پر دستخط کرنے سے انکار کی وجہ بھی یہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان امریکہ کو افغانستان میں عسکری کارروائیوں کا راستہ دینے کے لئے تیار نہیں۔ اس آپریشن کی اب امریکہ کے لئے اتنی اہمیت کیوں ہے؟ یہ بہرحال خطے کے ممالک، پاکستان، چین، روس، ایران اور وسطی ایشیائی ریاستیں ہیں جو افغانستان سے پھیلنے والی دہشت گردی کی تمازت برداشت کریں گی، نہ کہ امریکہ اور عالمی برادری جنہیں افغانستان میں موجود کسی اسامہ بن لادن جیسی عالمی دہشت گردی کا خطرہ نہیں۔ یقیناً یہ محض اتفاق نہیں کہ چین، روس اور ایران امریکہ کے عالمی اہداف میں سر فہرست ہیں۔
تحریک لبیک پاکستان ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر ہے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ حکومت اس کے راہ نما، سعد رضوی کو رہا اور فرانسیسی سفیر کو اسلام آباد سے نکال دے۔ عجیب بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ”کالعدم“ تحریک لبیک پاکستان کو انتخابات لڑنے، اور حکومت نے احتجاج اور لانگ مارچ کرنے کی اجازت دی تھی۔ وزیر داخلہ شیخ رشید نے پی ڈی ایم کو خبردار کیا ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے سے باز رہے، لیکن اُنہوں نے تحریک لبیک کے بارے میں ایک لفظ منہ سے نہیں نکالا۔
تحریک انصاف کے وزرا کی گھٹیا بیان بازی اور ٹرولنگ کا تازہ ترین نشانہ ممتاز صحافی، عاصمہ شیرازی بنی ہیں۔ اُنہوں نے صرف یہ لکھا تھا کہ بے شمار مسائل میں گھرے پاکستان کو الٹی سیدھی احمقانہ پالیسیوں سے نہیں چلایا جا سکتا۔ وزیر اعظم کے ترجمان، شہباز گل نے میڈیا کو خبردار کیا ہے کہ وزیر اعظم کے اہل خانہ کی توہین کسی طور برداشت نہیں کی جائے گی۔ اس سے گمان ہوتا ہے کہ ایسی پالیسیوں کی تحریک کہاں سے ملتی ہے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا پر کسی بھی حملے کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
نیب کا حزب اختلاف کے سیاست دانوں سے ظالمانہ سلوک قانونی حدود کی پامالی تک پہنچ چکا۔ ایسے افراد کی فہرست طویل ہے جنہیں کئی ماہ تک قید و بند کی صعوبتیں بھگتنا پڑیں لیکن اُن کے خلاف عدالت میں کچھ ثابت نہ کیا جا سکا۔ ان میں سب سے زیادہ تکلیف خورشید شاہ نے برداشت کی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے جابرانہ روش اپنانے اور من مانی کرنے پر نیب کی سخت سرزنش کی ہے، لیکن حکومت نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے اسی چیئرمین نیب کے عہدے کی مدت بڑھا دی۔ اب وہ اپنے اختیار کا کوڑا بھرپور انداز میں برسا رہے ہیں۔
واقعات میں آنے والے تازہ ترین موڑ کا اظہار دو شہ سرخیوں سے ہوتا ہے: ”ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی طالبان سے بات چیت کرنے کے لئے کابل آمد“ اور ”نئے ڈی جی آئی ایس آئی کا نوٹی فی کیشن آج جاری ہوگا“۔ آئی ایس پی آر نے کوئی دس دن پہلے اعلان کیا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کو ڈی جی آئی ایس آئی نامزد کیا گیا ہے، اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید پشاور میں گیارھویں کور کے نئے کمانڈر ہوں گے۔ تاہم، ان دونوں میں سے کسی نے ابھی تک اپنا عہدہ نہیں سنبھالا کیوں کہ عمران خان نے لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم سے انٹرویو کرنے کے بعد ابھی تک نوٹی فکیشن پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت کی صفوں میں کس قدر ابہام اور غیر یقینی پن پایا جاتا ہے۔ حالات معمول کے مطابق نہیں ہیں اور عاصمہ شیرازی اور دیگر افراد یہی کچھ کہہ رہے ہیں۔
کیا جب اسٹبلشمنٹ ناراض اراکین پارلیمنٹ کو اشارہ کرتی ہے تو عمران خان پارلیمان میں مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے سیاسی شہید بنتے ہیں یا وہ خود ہی تازہ انتخابات کی طرف بڑھ جاتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر پاکستان مسلم لیگ ن کے ہاتھوں سیاسی طور پر نیست و نابود ہونے کا خطرہ مول لیتے ہیں؟
بدقسمتی سے اس ایشو کی وجہ سے تحریک انصاف کی حکومت اور اسٹبلشمنٹ کے ایک صفحے کے بیانیے کے مکدر ہونے سے بات آگے بڑھ چکی ہے۔ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ اور جی ایچ کیو میں اُن کے ساتھی مشتعل ہیں کہ وزیر اعظم نے آئی ایس پی آر کے اعلان کا ”احترام“ نہیں کیا اور وہ ”کسی بھی صورت حال“ کے لئے تیار ہیں۔ دوسری طرف وزیر اعظم بھی اپنے مورچے میں قدم جمائے ہوئے ہیں۔ وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کوئی موم کی ناک نہیں۔ اس ٹکراؤ سے ہائبرڈ بندوبست کے خاتمے کا اشارہ ملتا ہے۔ لیکن یہ بات واضح نہیں کہ یہ نظام کس طرح اور کب منہدم ہوگا کیوں کہ اُن کے سامنے بھی میز پر زیادہ آپشن نہیں ہیں۔
ممکن ہے کہ عمران خان آئی ایس پی آر کے اعلان کے مطابق نوٹی فکیشن پر دستخط کر کے خود کو بچا لیں لیکن باہمی اعتماد کے آئینے میں بال آ چکا۔ گاہے گاہے کچھ پریشان کن اختلافات نمودار ہوتے رہیں گے یہاں تک کہ ایک دن ضبط کا بندھن ٹوٹ جائے گا۔ اس کے بعد ایک مرتبہ پھر ہم دستیاب آپشن پر بات کر رہے ہوں گے۔
اگر عمران خان اسٹبلشمنٹ کو اس کے اصل مقام پر لانے کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو کیا وہ وزیرا عظم کو ایسا کرنے کے لئے فری ہینڈ دے دے گی (جیسا جہانگیر کرامت نے کیا) یا اس کی طرف سے سخت ردعمل آئے گا اور وہ ہر چیز الٹ کر رکھ دے گی (جیسا پرویز مشرف نے کیا)؟ اور کیا جب اسٹبلشمنٹ ناراض اراکین پارلیمنٹ کو اشارہ کرتی ہے تو عمران خان پارلیمان میں مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے سیاسی شہید بنتے ہیں یا وہ خود ہی تازہ انتخابات کی طرف بڑھ جاتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر پاکستان مسلم لیگ ن کے ہاتھوں سیاسی طور پر نیست و نابود ہونے کا خطرہ مول لیتے ہیں؟
ہائبرڈ بندوبست کے دوران پاکستان کو اندرونی تنازعات کی وجہ سے بہت سے گھاؤ لگے ہیں۔ ان کی نوعیت ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین سے سنگین تر ہوتی جا رہی ہے۔ پاکستان کو عالمی تنہائی کا سامنا ہے۔ ملک معاشی مشکلات سے نکالنے والے کسی دوست سے محروم ہے۔ خطرہ بڑھتا جا رہا ہے کہ افغانستان میں مسلسل عدم استحکام پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ قومی سلامتی کی پالیسیوں اور عوامی وسائل پر اشرافیہ کے پلنے کے رجحان میں انقلابی تبدیلی لائے بغیر مستقبل تاریک دکھائی دیتا ہے۔
عظیم ملٹری مورخ، لڈل ہارٹ سے منسوب ایک مشہور بیان ہے کہ فوج کو کوئی نیا تصور سکھانے سے مشکل صرف ایک چیز ہے، اور وہ پرانے راسخ شدہ تصور کو ترک کرنے پر راضی کرنا ہے۔ پرانا تصور یہ ہے کہ پاکستان فوج کا ہے۔ نیا تصور ہے کہ فوج پاکستان کی ہے۔ پاکستان میں آنے والے سیاسی ارتقا کے دوران فوج کے ”چنتخب شدہ“ ہر لیڈر کو اس مشکل کا احساس ہوا لیکن اس سے پہلے کہ وہ اس کی تلافی کرتے ہوئے توازن پیدا کرتا، اُس کی مدت تمام ہو گئی۔ آخری سیاست دان جس نے توازن قائم کرنے کے لئے سر اٹھایا، وہ نواز شریف تھے۔ بے پناہ عوامی حمایت کے باوجود وہ ابھی تک میدان میں داخل نہیں ہو سکتے۔ اب عمران خان کے تیور بھی بدل رہے ہیں۔ لیکن چنتخب شدہ سیاست دانوں اور عوامی مینڈیٹ رکھنے والی جماعتوں کے سولین بالادستی کے تصورات کے برعکس عمران خان کے محرکات اور داؤ پیچ انتہائی مشکوک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک ابہام کے گرداب میں ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا۔
یہ بے چینی سے لبریز مشکل موسم سرما ہوگا۔ پاکستان کے ساختی ڈھانچے میں کوئی چیز مر رہی ہے۔ لیکن ہم نہیں جانتے کہ اس کی جگہ کون سی چیز جنم لے رہی ہے۔ دکھائی دینے والے شواہد خوش آئند نہیں۔ چیختی ہوئی شہ سرخیاں بہت کچھ کہہ رہی ہیں۔