سابق وزیر اعظم نواز شریف نے 20 ستمبر کو ہوئی اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس میں تقریر کیا کی، ان کے سابق دوست اور موجودہ وفاقر وزیر ریلوے شیخ رشید احمد تو ہاتھ دھو کر ان کے پیچھے ہی پڑ گئے ہیں۔ قریب روز ہی ایک آدھ پریس کانفرنس کھڑکا رہے ہیں اور ٹی وی ٹاک شوز میں کی گئی شعلہ بیانی اس کے سوا ہے۔ کبھی کہتے ہیں نواز شریف کے ساتھی تو جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتیں کرتے ہیں، ان کی کیا مجال کہ فوج کے کردار پر انگلی اٹھائیں، کبھی ن میں ش نکالتے دکھائی دیتے ہیں، تو کبھی کسی کے گرفتار ہونے کی منادی کراتے پائے جاتے ہیں۔
چند روز قبل ایسی ہی ایک پریس کانفرنس میں شیخ صاحب نے نواز شریف سے دس سوال کر ڈالے۔ باقی کے سوال تو اپنی جگہ، شیخ صاحب کا ایک سوال یہ بھی تھا کہ القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن سے نواز شریف نے کتنا چندہ لیا تھا۔ یاد رہے کہ نواز شریف پر گذشتہ کئی برس سے یہ الزام موجود ہے کہ انہوں نے بینظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت میں اسامہ بن لادن سے بینظیر حکومت گرانے کے لئے کوئی رقم لی تھی۔ یہ الزام پہلی مرتبہ تو 2006 میں سامنے آیا تھا لیکن اس کے بعد سے گاہے بگاہے اس کی بازگشت سنائی دیتی رہتی ہے۔ 2017 میں جب نواز شریف کے خلاف ایک بھرپور سیاسی مہم جاری تھی تو پاکستان تحریک انصاف ایک مرتبہ پھر یہ معاملہ اٹھا لائی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ وہ سابق وزیر اعظم کے خلاف اس کیس کو لے کر عدالت جائیں گے۔ پھر کیا ہوا، شاید ہی کوئی جانتا ہو۔ تاہم، یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ نواز شریف کے بارے میںیہ دعویٰ کیا گیا ہو۔ 2016 میں خالد خواجہ، سابق آئی ایس آئی اہلکار، کی اہلیہ شمامہ خالد نے ’خالد خواجہ: شہیدِ امن‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی جس میں انہوں نے یہ انکشاف کیا تھا۔ اس سے قبل 2009 میں اپنی ہلاکت سے ایک سال پہلے خالد خواجہ خود بھییہ الزام عائد کر چکے تھے جب کہ 2006 میں حامد میر نے بھی ان کا حوالہ دے کر ہی اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ خالد خواجہ کے مطابق نواز شریف نے اسامہ بن لادن سے پیسے لیے تھے اور یہ رقم انہوں نے خود نواز شریف تک پہنچائی تھی۔ اب ایک مرتبہ پھر اس حوالے سے حامد میر ہی کے کالم میں کچھ خاص قوتوں کی طرف اس سارے کھیل کو رچانے کے حوالے سے اشارہ کیا گیا ہے۔
28 ستمبر کو جنگ میں چھپنے والے اپنے کالم میں حامد میر لکھتے ہیں کہ:
شیخ رشید مزید کتنی ملاقاتوں کا بھانڈا پھوڑیں گے؟ اگلے دن انہوں نے نواز شریف سے دس سوال پوچھے ہیں جس میں ایک یہ بھی ہے کہ اسامہ بن لادن سے آپ کی کتنی ملاقاتیں ہوئیں اور آپ نے اسامہ سے کتنا چندہ وصول کیا؟ شیخ صاحب بھول گئے کہ یہ وہی اسامہ بن لادن ہیں جنہیں کچھ ہفتے قبل جون 2020میں وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے شہید قرار دیدیا تھا۔
جس ملاقات کے متعلق شیخ رشید احمد نے سوال پوچھا ہے اُس ملاقات کے بارے میں ایک دفعہ میں نے بھی اسامہ بن لادن سے انٹرویو کے دوران سوال پوچھا تھا۔ اسامہ بن لادن نے آن دی ریکارڈ تو کوئی جواب نہ دیا البتہ آف دی ریکارڈ جو بتایا اس سے میرے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ اس معاملے پر نواز شریف کو پہلے بھی بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی۔ کسی کو اچھا لگے یا بُرا لگے، مجھ ناچیز کو 1998میں مولانا فضل الرحمٰن کے وہ جلسے یاد ہیں جو افغانستان پر امریکی میزائل حملوں کے خلاف کئے گئے اور اُن جلسوں میں مولانا صاحب اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف پر وہی الزامات لگایا کرتے تھے جو الزامات وہ آج کل عمران خان پر لگاتے ہیں۔
اُن جلسوں میں حافظ حسین احمد یہی سوال پوچھتے تھے جو اب شیخ رشید احمد نے پوچھا ہے۔ 1999میں نواز شریف کی حکومت ختم ہوئی تو جنرل پرویز مشرف نے اس معاملے کی تحقیقات کرائیں کہ اسامہ بن لادن نے نواز شریف کو کب، کیوں اور کتنے پیسے دیے تھے۔ یہ تحقیقات ابتدائی مرحلے میں ہی بند کرا دی گئیں کیونکہ معاملہ کسی اور طرف نکل گیا تھا۔ شیخ صاحب تو مشرف حکومت میں بھی وزیر تھے۔
اس معاملے پر اس دور میں وہ خاموش رہے۔ اب اگر اس معاملے پر انہیں کوئی جواب چاہیئے تو وزیراعظم عمران خان سے کہہ کر پرانی فائلیں کھلوا لیں اور نواز شریف پر ایک نیا مقدمہ بھی بنوا دیں۔ کہیں وہ نہ ہو جائے جو اصغر خان کیس میں ہو گیا۔ حکومت بھی اپنی اور ایف آئی اے بھی اپنی، جب سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ جن سیاست دانوں نے 1990میں آئی ایس آئی سے پیسے لئے ایف آئی اے اس کے ثبوت لیکر آئے تو عمران خان کے دور میں ایف آئی اے نے عدالت میں کہا کہ ہمیں کوئی ثبوت نہیں ملا۔
حامد میر نے محض ایک اشارہ دیا ہے کہ اسامہ بن لادن سے پیسے لینے والے دراصل کون لوگ تھے۔ لیکن اس حوالے سے ممتاز صحافی اور ایڈیٹر خالد احمد اپنی 2007 میں شائع ہونے والی کتاب Sectarian War میں پورا قضیہ بیان کر چکے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
1989 میں اسامہ بن لادن بینظیر بھٹو حکومت سے ناراض ہو گیا کیونکہ ان کی حکومت چند عرب ممالک کی اس شکایت پر کارروائی کرنے کا فیصلہ کر چکی تھی کہ افغانستان میں جہاد کرنے والے کچھ عرب دہشتگرد اپنی ریاستوں میں بھی دہشتگردی کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے تھے جب کہ یہ سب رہتے اس وقت پشاور میں تھے۔ خالد احمد بھی اپنی کتاب میں حامد میر کے 2006 میں لکھے گئے کالم کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ خالد خواجہ کے مطابق 1989 میں اسامہ بن لادن نے نواز شریف کو رقم فراہم کی تھی تاکہ وہ بینظیر بھٹو کی حکومت الٹا سکیں۔ خالد خواجہ نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ وہ یہ رقم خود نواز شریف کے پاس لے کر گئے تھے۔ حقیقت مگر حامد میر کے مطابق یہ تھی کہ اسامہ بن لادن بینظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے، وہ اپنے عرب دوستوں کو پشاور میں کسی مشکل سے بچانا چاہتے تھے۔ اس سال مصر کے حسنی مبارک، لیبیا کے معمر قذافی اور اردن کے شاہ حسین نے بینظیر بھٹو سے پشاور میں موجود عرب دہشتگردوں سے جان چھڑانے کی بابت بات کی تھی۔ جو آپریشن کیا گیا، اس میں ابو مصعب الزرقاوی (جس نے بعد ازاں Alqaeda in Iraq کی بنیاد رکھی اور یہ تنظیم ہی چند سالوں بعد داعش میں ڈھل گئی) کو بھی گرفتار کیا گیا اور اسے چھ مہینے جیل میں گزارنے پڑے۔ یہاں سے وہ سیدھا اردن پہنچا اور اسے وہاں بھی جیل میں ڈال دیا گیا۔
خالد احمد کے مطابق خالد خواجہ تب تک آئی ایس آئی سے ریٹائر ہو چکے تھے لیکن نواز شریف کے ساتھ ذاتی حیثیت میں اب بھی کام کر رہے تھے اور لاہور اور راولپنڈی کے درمیان ان کی پروازوں کے پائلٹ یہی ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے ہی اسامہ کو نواز شریف کو یہ رقم دینے کا مشورہ دیا تھا۔
تاہم، اس حوالے سے بیل منڈھے نہ چڑھ سکی کیونکہ کوئی بھی حکومت اس وقت اسامہ کے بندوں کو پشاور میں چھپا کر رکھنے کے حق میں نہیں ہو سکتی تھی۔
نظر یہی آتا ہے کہ اسامہ بن لادن کی جانب سے دی گئی رقم کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کتنی تھی اور دی بھی گئی تھی یا نہیں۔ دوسری طرف اس میں معاملہ وہی ہے جس کی طرف حامد میر نے اپنے حالیہ کالم میں متنبہ کیا کہ اگر یہ کیس کھلا تو اس میں اصغر خان کیس کی طرح کے حقائق سامنے آ سکتے ہیں۔ قرینِ قیاس یہی ہے کہ یہ سوال دوبارہ نہیں دہرایا جائے گا۔ لیکن اس سے قطع نظر نواز شریف کو ہر حال میں حقائق عوام کے سامنے رکھنے چاہئیں کیونکہ یہ ریاستِ پاکستان اور اس کے باسیوں کا حق ہے کہ اس معاملے میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔