یوں لگتا ہے کہ ریاست پاکستان مشکلات کے گرداب میں پھنس گئی ہے۔ ایک جانب داخلی سطح پر احتجاجوں کا موسم لوٹ آیا ہے۔ ہر جماعت مہنگائی کو لے کر سڑکوں پر آنے کے لئے لنگوٹ کس رہی ہے۔ پی ڈی ایم جماعتیں آج سے سڑکوں پر ہیں۔ پیپلز پارٹی بھی احتجاجی موڈ میں ہے اور جماعت اسلامی نے بھی اگلے ہفتے سے احتجاجوں کا اعلان کر دیا ہے۔ سیاسی طور پر سلجھی ہوئی جماعتیں تو ایک طرف ٹی ایل پی جس کے پاس سب سے زیادہ عوامی بیانیہ ہے جو کہ مذہی بنیاد پر منحصر ہے، اس نے اسلام آباد کا رخ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ بظاہر اس کے جو مطالبات ہیں وہ حکومت کے بس سے باہر معاملات ہیں۔ ایسے میں ڈیڈ لاک اور مزاحمت لازم ہے۔
اب تک کی میڈیا رپورٹس کے مطابق لانگ مارچ کو لاہور میں ہی رکھنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ یہ منصوبہ تصادم کا نسخہ ہے۔ داخلی تصویر تو متاثر ہے ہی لیکن خارجی و عالمی سطح پر بھی پاکستان کے لئے کچھ اچھی خبریں نہیں ہیں۔ روپے کی گرتی ہوئی قدر اور مہنگائی کے طوفان میں گھرے پاکستان کی حکومت کو امید تھی کہ آئی ایم ایف کی جانب سے ایک قسط ملنے کے بعد روپیہ کچھ دیر کے لئے اپنی گرتی ہوئی ساکھ بچا پائے گا۔ ایسا بھی نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ پاکستان کی جانب سے مشیر خزانہ شوکت ترین جو کہ پاکستان کے مذاکراتی نمائندہ تھے وہ اچانک سے نیویارک چھوڑ گئے۔ خبر کے مطابق وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ و ریونیو شوکت ترین، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ مذاکرات ختم کیے بغیر واشنگٹن سے روانہ ہو گئے۔ یہ مذاکرات آئی ایم ایف کی جانب سے حکومت کی معاشی پالیسیوں کی انتہائی ضروری توثیق کا باعث بن سکتے تھے۔
اخباری رپورٹ کے مطابق مالیاتی ادارے کے ساتھ 6 ارب ڈالر کی قرض سہولت کی بحالی کے لئے مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لئے سیکریٹری خزانہ واشنگٹن میں ہی موجود تھے۔ بدھ کی شام تک پاکستانی وفد کو مثبت نتیجہ آنے کی اُمید تھی اور اس نے میڈیا کے ساتھ اچھی خبر شیئر کرنے کے لئے جمعرات کی صبح نیوز بریفنگ شیڈول کی تھی۔ تاہم اسی رات وفد نے میڈیا کو بریفنگ منسوخ ہونے کا پیغام بھیج دیا۔ جمعرات کو شوکت ترین نیویارک سے بین الاقوامی پرواز پکڑنے کے لئے خاموشی سے واشنگٹن سے بذریعہ ٹرین روانہ ہو گئے۔ وہ ممکنہ طور پر وزیر اعظم کے دورہ سعودی عرب میں ان کے ہمراہ ہوں گے جو رواں ہفتے کے آخر میں ہونے کا امکان ہے۔ اس دوران ہونے والی دونوں ملاقاتوں کے دونوں فریقین نے اُمید ظاہر کی کہ مذاکرات کا جلد مثبت نتیجہ نکلے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ تاہم پاکستانی حکام کا اب بھی اصرار ہے کہ یہ کہنا غلط ہوگا کہ مذاکرات ناکام ہو گئے۔
بہرالحال وہ اگر ناکام نہیں تو بھی پاکستان کو فوری طور پر ڈالر ملنے کی امید نہیں ہے جس کے لحاظ سے یہ سمجھنا آسان ہے کہ روپے کی قدر مزید گرے گی۔ روپے کی قدر مزید گرے گی تو مہنگائی کا مزید طوفان آئے گا۔ معاشی امور سے متعلق اپنی رپورٹنگ کے حوالے سے معروف صحافی اور ماہر معیشت خرم حسین نے گذشتہ روز نیا دور کے پروگرام خبر سے آگے میں کہا تھا کہ حکومت کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ ایک سونامی ان سے ٹکرانے والی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک عام آدمی کے ساتھ دسمبر، جنوری، فروری میں وہ کچھ یونے والا ہے کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملے گی۔ ایک جانب یہ صورتحال ہے تو دوسری طرف پاکستان فیٹف کے شنکنحے سے نکل نہیں پایا۔
خبر کے مطابق 'اچھی پیش رفت' کا اعتراف کرتے ہوئے، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے جمعرات کو پاکستان کو اپنی 'بڑھتی مانیٹرنگ لسٹ' نام نہاد گرے لسٹ میں برقرار رکھا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف تحقیقات جاری رکھے، اقوام متحدہ کے نامزد دہشت گرد گروہوں کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔ اس حوالے سے گذشتہ روز نیا دور کے پروگرام خبر سے آگے میں سینئر صحافی عامر غوری نے کہا تھا کہ ہم صحافیوں پر دباؤ ہے کہ ہم اس نکتے کی بات نہ کریں جو کہ فیٹف کی جانب سے پاکستان کو کرنے کے لئے کہا جا رہا ہے۔
اس نکتے میں صرف اور صرف دہشتگردوں کو سزائیں دینے کی بات ہے جس بارے میں ریاست پاکستان ابہام کا شکار ہے۔ ایسے میں جب خارجی اور داخلی سطح پر بری ہی بری خبریں ہیں، حکومت کو جادو ٹونے کے اشارے کنایوں کے استعمال کرنے والی عاصمہ شیرازی کی کردار کشی کی مصروفیت حاصل ہے جب کہ ریاستی ادارے افغان مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں اور حکومت کی جانب سے اہم ترین ریاستی ادارے کی سربراہی کا نوٹیفکیشن دبا پڑا ہے۔ کیا ایسے ریاستیں کامیاب ہوتی ہیں؟ اس سوال کا جواب تو شاید سب کو ہی معلوم ہو۔