قیام پاکستان کے فوراً بعد سے ہی وطن عزیز پاکستان کو کئی داخلی و خارجی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان تمام بحرانوں میں سے بڑا بحران ملکی سلامتی، دفاعِ آزادی و خود مختاری کا تحفظ تھا۔ بھارت نے پہلے دن سے ہی پاکستان کو دل سے تسلیم ہی نہیں کیا تھا۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد دفاعی امور کے ماہرین اور خارجہ پالیسی سازوں نے کمیونسٹ بلاک کی بجائے امریکہ اور یورپ کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے لئے عملی اقدامات شروع کر دیے۔ ان عملی اقدامات میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم جناب خان نواب زادہ لیاقت علی خان کا دورہ امریکہ نہایت اہمیت کا حامل تھا۔ امید واثق تھی کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات باہمی اعتماد اور دیرپا رشتوں پر مبنی ہوں گے۔ اس سلسلے میں پاکستان سینٹو CENTO اور متعدد امریکی دفاعی معاہدوں میں بھی شامل رہا۔
یقیناً ان معاہدوں کا مقصد دفاعی اور غیر دفاعی امداد کا حصول تھا۔ ان معاہدوں کی بدولت ہی پاکستان دفاع کے علاوہ دوسرے کئی شعبوں مثلاً تعلیمی، سماجی، انفراسٹرکچر کے سلسلے میں امریکی امداد کے حصول میں کامیاب رہا۔ لیکن ان معاہدوں کے نتیجے میں جنوبی ایشیا میں مریکی اثر و نفوذ بھی بڑھتا چلا گیا اور پاکستان کی دفاعی پوزیشن بھی قدرے بہتر رہی۔ اسی دور میں پاکستان نے امریکہ کے علاوہ مشرق وسطیٰ، کمیونسٹ ممالک خصوصاً چین اور غیر وابستہ ممالک کی تحریک میں شامل ممالک اور دیگر یورپی ممالک کے سے بھی تعلقات میں توازن قائم رکھنے کی کوشش کی۔ لیکن عالمی و علاقی حالات و وقعات میں متعدد تبدیلیوں کے باعث دونوں ممالک کے تعلقات میں مسلسل اتار چڑھاؤ دیکھنے کو ملا۔
1962 کی چین بھارت جنگ میں ایوب خان نے امریکی دباؤ کو اس وقت مسترد کر دیا جب امریکی انتظامیہ نے پاکستان سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ بھارت کو مشرقی پاکستان کا راستہ دیا جائے تاکہ بھارتی افواج چین کے خلاف مہم جوئی کر سکیں۔ ایوب خان کے اس انکار کے بعد چین اور پاکستان کے درمیان تعلقات کا ایک نیا خوبصورت دور شروع ہوا۔ پاکستان کے کئی حکمرانوں بشمول ایوب خان نے بھی امریکہ سے برابری کی سطح پر تعلقات کو ترجیح دی۔ ایوب خان اپنی کتاب (Friends Not Masters)کے مطابق امریکہ کی پاکستان کے لئے فوجی امداد کی بندش اور بعد میں متعدد پابندیوں سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں سر د مہری دیکھنے کو ملی کیونکہ امریکہ کسی طور پر بھی یہ نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان امریکی اسلحہ بھارت کے خلاف استعمال کرے۔
1979 میں روسی افواج کی افغانستان میں مداخلت سے ایک بار پھر دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آ گئے اور تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ روس افغان جنگ کے بعد پھر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں طویل سرد مہری دیکھنے کو ملی۔ 9/11 کے بعد پھر دہشت گردی کے خلاف عالی جنگ میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آ گئے اور سفارتی تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا لیکن پھر اچانک افغانستان سے امریکہ کی روانگی سے پیدا ہونے والی صورتحال اور عبرتناک شکست کا ذمہ دار بھی امریکہ نے اپنے اتحادی پاکستان کو ہی قرار دیا اور مسلسل ڈومور Do More کے نعرے لگا تا رہا۔
شاید امریکہ خارجہ پالیسی سازیہ نہیں جانتے کہ بہادر اور غیور افغان قوم نے کبھی بھی کسی بھی سامراج اور بیرونی طاقت اور مداخلت کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے۔ امریکی پالیسی سازوں کو اس خطے کی تاریخ کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب امریکی خارجہ پالیسی ساز دراصل جنوبی ایشیا میں بھارت کو علاقے کے تھانیدار کا کردار دینا چاہتے ہیں۔ اور چین کے علاقائی اثر و نفوذ کو کم کرنے کے لئے بھارت کے ایٹمی دھماکوں پر بھی صاف اور واضح موقف دینے سے گریزاں رہے ہیں جب کہ امریکی انتظامیہ نے 1998 میں سابق وزیر اعظم نواز شریف حکومت پر بھی دباؤ بڑھانا شروع کر دیا تھا کہ وہ امداد کے بدلے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکے نہ کریں۔ لیکن اس وقت کی عسکری و سول قیات نے امریی ڈالر پر ملک کی سالمیت، وقار اور خود مختاری کو فوقیت دی۔
پاکستان کی عسکری وسول انتظامیہ پہلے دن سے ہی امریکی عہدے داروں کو یقین دلاتی رہی ہے کہ پاکستان کا ایٹمی وقت اور اس کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم عالمی معیار کے عین مطابق ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں انتہائی غیر ذمہ دارانہ گفتگو کی۔ موجودہ پاکستانی حکومت نے اس معاملے پر انتہائی سنجیدہ اور ذمہدارانہ ردعمل دیا ہے جو انتہائی قابل ستائش ہے۔ حکومت وقت نے فوری طور پر امریکی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاجی مراسلہ پیش کر کے اسے شید تحفظات کا اظہار کیا۔
اگر تاریخ کے اوراق کو چھانا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ میں متعدد یورپی اقوام ہی تگ و دو کرتی رہی ہیں اور متعدد ایٹمی تجربات اور حادثات بھی یورپ کی سر زمین پر ہی واقع ہوئے ہیں۔ آج دینا کے امن کو خطرہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں سے نہیں بلکہ ماضی میں امریکہ کے غیر انسانی اور غیر اخلاقی فیصلوں سے ہوا ہے جب ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکہ نے ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کیا اور لاکھوں معصوم افراد ہمیشہ کے لئے لقمہ اجل بن گئے۔ آج دنیا کو خطرہ بھارت اور اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی سے ہے جہاں لاکھوں بے گناہ کشمیری اور فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔
آج دنیا کو خطرہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں یا پیشگی حملہ کی پالیسی سے نہیں ہے بلکہ آج پوری دنیا پاکستان کی عالمی امن اور علاقائی امن و ترقی وخوشحالی کی معترف ہے۔ دنیا کے متعدد ممالک میں افواج پاکستان نے اقوام متحدہ امن جشن کے تحت قیام امن کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں۔ دراصل دنیا میں امن، سلامتی، خوشحالی کے لئے پاکستان کا کردار ہمیشہ اہم اور موثر رہا ہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکی انتظامیہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لئے عملی اقدامات کرے اور امریکی صدر اور اعلیٰ قیادت آئندہ اس قسم کے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے اجتناب کرے۔ پاکستانی عوام مختلف شعبوں میں امریکی تعاون کے لئے امریکی حکومت امریکی عوام اور امریکی انتظامیہ کے مشکور ہیں۔ لیکن ابھی ان تعلقات کو مزید بہتر بنانے کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
امریکی صدر ماضی قریب میں سعودی قیادت خصوصاً شاہ سلمان کے بارے میں انتہائی غیر سنجیدہ اور غیر سفارتی زبان استعمال کر چکے ہیں۔ اب انہوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر انتہائی غیر ذمہ دارانہ گفتگو کر کے ناصرف سفارتی آداب کی خلاف ورزی کی ہے بلکہ پاک امریکہ تعلقات کو خراب کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ امریکی خارجہ پالیسی سازوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے پاکستان کا ایٹمی پروگرام انتہائی اہم ہے اور پاکستانی عوام کسی بھی صورت میں بھارت کی روایتی و غیر روایتی ہتھیاروں کی برتری برداشت نہیں کریں گے۔
پروفیسر کامران جیمز سیاسیات کے استاد ہیں اور فارمن کرسچین یونیورسٹی لاہور میں پڑھاتے ہیں۔