پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے وجود کو تقریباً 21 سال ہونے کو ہیں۔ اس دوران کئی جمہوری حکومتیں آئیں، جنہوں نے میڈیا کے احتساب کی کوششیں کیں مگر ہمیشہ ناکام رہیں۔ اس عرصہ کے دوران ہمیشہ میڈیا کے نمائندہ اداروں کی جانب سے یہی کہا گیا کہ میڈیا اپنا احتساب خود کرے گا، اسے کسی ادارے کی مداخلت قبول نہیں، مگر یہ خود احتسابی کا عمل کبھی شروع نہیں ہو سکا۔ اس دوران میڈیا اداروں کو پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا، کارکن صحافیوں نے سختیاں برداشت کیں، کئی اداروں میں تو میڈیا ورکرز کو اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔
ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے جب تحریک انصاف کے اقتدار کا سورج سوا نیزے پر تھا تو اس کے وزیر اور مشیر ببانگ دہل پریس کانفرنسوں میں اعلان کرتے نہیں تھکتے تھے کہ ہم میڈیا کو نکیل ڈالیں گے، میڈیا اداروں کے اشتہارات بند کیے گئے، جس کے نتیجے کے طور پر میڈیا مالکان نے معاشی دباؤ کا بہانہ تراش کر اپنے میڈیا ورکروں کی چھانٹی کرنا شروع کر دی اور اس کے ساتھ ساتھ تنخواہوں میں کٹوتی بھی کی گئی۔ مہنگائی اس وقت بھی تھی، کئی میڈیا کارکن تو ایسے بھی تھے جن کو اپنے معاشی حالات سے تنگ آ کر جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ یہ حالات یقیناً بدترین تھے، جن کا سامنا مالکان نے کم اور ورکرز نے زیادہ کیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں میڈیا خود احتسابی کےعمل سے ہمیشہ دور رہنے کی کوشش کرتا رہا؟
اس سوال کا جواب بڑا سیدھا سا ہے اور وہ یہ کہ پاکستان میں میڈیا کے ایسے اداروں کی اکثریت ہے جو صحافت سے زیادہ تجارت کے فروغ کیلئے قائم ہیں۔ ان کا واحد مقصد اپنے کاروبار کا تحفظ ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ صحافت ان کیلئے کاروبار سے زیادہ کچھ نہیں۔ اگر صرف گذشتہ 10 سالوں کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ پاکستان کے منظرنامے پر جو نئے میڈیا چینلز سامنے آئے ان میں سے ہر ایک کے پیچھے کوئی نہ کوئی کاروبار ضرور ہے، چاہے وہ پراپرٹی کا کاروبار ہو یا فیکٹریاں ہوں۔ ایسے حالات میں آخر خود احتسابی کا نعرہ کون بلند کرے گا اور کیوں!
پاکستان میں موجودہ میڈیا ایک ایسی صورت اختیار کر چکا ہے جو اب حکومتوں کی تشکیل اور خاتمے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ وہ دور گزر چکا جب میڈیا کو ریاست کے ایک ایسے چوتھے ستون کے طور پر جانا جاتا تھا جو عوام کے جمہوری حقوق کے تحفط کیلئے ایک مضبوط چٹان تصور ہوتا تھا، مگر اب میڈیا مالکان کی ترجیح صرف اور صرف اپنے کاروبار کا تحفظ ہے۔ پاکستان میں ایک وقت ایسا تھا جب میڈیا میں صحافت کے بڑے معتبر نام موجود تھے جو ناصرف صحافتی اصولوں کی پاسداری پر یقین رکھتے تھے بلکہ میڈیا ورکرز کے حقوق کی جنگ بھی لڑتے رہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ وہ کارکن جو احتساب کے عمل کیلئے آواز اٹھانے کی کوشش بھی کریں تو وہ اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں!
سب سے اہم سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ میڈیا کا احتساب کون کرے گا؟ پاکستان میں میڈیا کی موجودہ شکل اس سوال کا جواب مزید مشکل بنا دیتی ہے۔ ایک جمہوری معاشرے میں میڈیا میں خود احتسابی کا عمل شروع ہونا چاہیے، لیکن پاکستان کی صورت حال مختلف ہے۔ یہاں میڈیا یہ تو چاہتا ہے کہ وہ سیاست دانوں، ججوں اور جرنیلوں کا احتساب کرے لیکن کوئی اس پر انگلی نہ اٹھائے۔ اس یک طرفہ صورت حال کا مستقبل میں نتیجہ یہ نکلے گا کہ ریاست کے دیگر ادارے میڈیا میں احتساب کیلئے اپنے طور پر اقدامات شروع کریں گے اور کوئی آواز اٹھانے والا بھی نہیں ہوگا!
پاکستان میں ایک نیا جمہوری نظام قائم ہورہا ہے۔ میڈیا کو اس صورت حال میں چاہیے کہ خود احتسابی کے عمل کو شروع کرے تا کہ کوئی دوسرا ادارہ اس پر انگلی نہ اٹھا سکے۔ میڈیا عوام کے حقوق کی جنگ صرف اسی صورت لڑ سکتا ہے جب یہ اندر سے مضبوط ہو گا۔ اگر عوام کی نظروں میں میڈیا کی ساکھ ہی مشکوک ہو گئی تو پھر یہ ادارہ محض چند لوگوں کے مفادات کی نگرانی کرنے کے سوا اور کوئی دوسرا کام نہیں کر سکے گا!