الیکٹرانک الیکشن سے ڈرکیسا؟: 'اپوزیشن اس موقع کو نہ گنوائے تو ہمارے دیرینہ مسائل حل ہو سکتے ہیں'

الیکٹرانک الیکشن سے ڈرکیسا؟: 'اپوزیشن اس موقع کو نہ گنوائے تو ہمارے دیرینہ مسائل حل ہو سکتے ہیں'
بھارت میں بھی اپوزیشن پارٹیوں کا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ ای وی ایم ختم کردی جائے، بلکہ وہ بیک وقت ایک ایسے متبادل نظام کی بات کررہے ہیں جس سے ان کا جمہوریت میں الیکٹرانک ووٹنگ پر اعتمادمزید بڑھ جائے۔ فرانس نے بھی اس لیے ای وی ایم کو رد نہیں کیا کہ اس کو بیلٹ پر ای وی ایم سے زیادہ اعتماد ہے، بلکہ وہ ایک قدم آگے بڑھ گیا اور انٹرنیٹ ووٹنگ سسٹم پر منتقل ہوگیا۔ مطلب ای وی ایم ترقی کی طرف ایک قدم ہے، ہمیں ابھی یہاں سے بہت آگے بڑھنا ہے۔

پاکستان میں نواز شریف کے دور میں چار حلقے کھولنے اور شفاف تحقیقات کروانے کے مطالبے پر اسلام آباد میں 126 دن کا دھرنا دینے والے عمران خان آج وزیراعظم پاکستان ہیں اور اپنے الیکشن سے متعلق اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں۔ اب چیلنج یہ ہے کہ ان کا الیکشن اصلاحات اور ای وی ایم سسٹم لانے کے سامنے حکومتی ادارہ الیکشن کمیشن ہی آکھڑا ہوا ہے اور اب یہ ایک معاملے سے تنازعہ بن چکا ہے۔ یہ بحث تب لڑائی کی صورت اختیار کرسکتی ہے جب کچھ روز میں الیکشن اصلاحات بل نے اسمبلی میں پیش ہونا ہے اور وہاں اپوزیشن نے پوری تیاری کے ساتھ حملہ آور ہونا ہے۔

اگر اپوزیشن بیٹھ کر بات کرنے کے اس موقعے کو ہلڑ بازی میں نہ گنوا دے تو ان الیکشن اصلاحات سے برسوں کی خرابیوں کو سدھارا جا سکتا ہے۔ کیا برائی ہے کہ ہم حکومت کو جہاں غلط سمجھ رہے ہیں وہاں ان کی درستگی کردیں اور اپنے اعتراضات کو سسٹم کے ٹھیک کرنے کے لیے استعمال ہونے دیں۔ لیکن ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا، کیونکہ سبھی کو نظر آرہا ہے کہ الیکشن اصلاحات اور ای وی ایم کے آنے سے کس کو فائدہ ہے اور کسے نقصان۔ صرف ای وی ایم کی ہی بات کرلیں تو اس سے ہمارے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

بیلٹ پیپر سے ہونے والے الیکشنز میں نتائج آنے میں گھنٹوں لگتے ہیں اور ایک پورا دن مطلب 24 گھنٹے کا وقت درکار ہوتا ہے۔ ای وی ایم سے یہ وقت گھٹ کر 4 سے پانچ گھنٹے ہوجائے گا۔ ہمیں جو چیز سب سے زیادہ مطلوب ہے وہ ہے شفاف الیکشنز۔ کیا ہم ای وی ایم سسٹم پر بھروسہ کرسکتے ہیں؟ بالکل کر سکتے ہیں۔ کیا ای وی ایم ہیک ہوسکتا ہے؟ بالکل ہوسکتا ہے۔ کیونکہ یہ ایک مشین ہے اور اس کے اندر سافٹ وئیر کام کرتا ہے، مائیکروسافٹ اگر ہیک ہوسکتا ہے تو یہ تو ایک چھوٹی سی مشین کا چھوٹا سا سافٹ وئیر ہے۔ لیکن اس کا بھی ایک حل موجود ہے۔ ہم کیوں نہیں پہلے کچھ حلقوں کے ضمنی الیکشنز میں اس مشین کا تجربہ کرلیتے؟ اس طرح سے ہم جان جائیں گے کہ سسٹم کی خامیاں کیا ہیں اور ہم اگلے الیکشنز تک ان خامیوں کو مزید ٹھیک کرسکتے ہیں۔ ہم سافٹ وئیر کے ہیک ہونے اور اس کو ہیک سے بچانے کی صورتوں پر ایکسپرٹس کی مدد بھی حاصل کرسکتے ہیں۔

ہاں اس مرحلے پر ہمیں مشکل پیش آسکتی ہے کہ ہمیں مشین سے متعلق الیکشن کمیشن کے عملے، اور عوام کو بھی آگاہی دینا ہوگی۔ اسٹاف کو باضابطہ ٹریننگ کی ضرورت ہوگی تب ہی وہ جا کر بہتر کام کرسکیں گے۔ الیکشن کمیشن کے اس نکتے پر بھی غور کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے کہ کسی دوردراز علاقے سے یہ شکایت ملتی ہے کہ مشین خراب ہوگئی ہے تو کیا کریں گے؟ مگر یہ باتیں تو بیٹھ کر حل کرنے والی ہیں۔

ہم سسٹم کو متعارف بھی کروالیں گے، اس کو مزید بہتر بھی بنا لیں گے مگر اس کے لیے ہمیں تمام اسٹیک ہولڈرز جس میں حکومت، اپوزیشن، ادارے اور عوام کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ حکومت اور اپوزیشن کو بیٹھ کر معاملات طے کرنا ہونگے اور سمجھنا ہوگا کہ اس کو متنازعہ بنا کر ہم ملک کو مزید کئی سال پیچھے لے جائیں گے۔ شفاف الیکشنز بہرحال اسٹیک ہولڈرز کے سسٹم پر مکمل اعتماد اور اس کو مزید بہتر کرنے کیے عزم سے ہی ممکن ہیں! اور اگر سبھی اسٹیک ہولڈرز شفاف الیکشنز کے خواہشمند ہیں، تو پھرالیکشن بیلٹ پر ہوں یا الیکٹرانک، ڈر کیسا؟

سلمان درانی لاہور میں مقیم صحافی ہیں۔ بیشتر قومی اخبارات، اور آن لائن آؤٹ لیٹس پر رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل @durraniviews ہے۔