امریکی ادارے یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس (یو ایس آئی پی) نے سوات سے تعلق رکھنے والی معروف سماجی کارکن تبسم عدنان کو عالمی امن ایوارڈ کیلئے نامزد کر دیا ہے۔
یو ایس آئی پی کی جانب سے یہ عالمی ایوارڈ اپنے ملک کیلئے خدمات سرانجام دینے والی خواتین کو دیا جاتا ہے۔ امریکی ادارے کو رواں سال تیس سے زائد ممالک سے نامزدگیاں موصول ہوئیں تھیں۔
انڈیپینڈنٹ اردو کے مطابق عالمی امن ایوارڈ کیلئے رواں سال نامزد ہونے والی خواتین میں پاکستان سے تبسم عدنان، بنگلا دیش سے رانی یان یان، کینیا سے جین ڈبلیو ویتیتو اور جوزفین ایکرو، جنوبی سوڈان سے نیاچانگکوتھ تائی، کیمرون سے ایستھر اوم، ڈیموکریٹک ریبلک کانگو سے تتیانا موکانیر، کولمبیا سے والڈسٹروڈیس ہرٹاڈو اور کولمبیا سے ٹیریسیتا گاویریا شامل ہیں۔
یو ایس آئی پی کی صدر لیز گرانڈے نے کہا ہے کہ ہمارے لیے یہ اعزاز ہے کہ ہم نمایاں خدمات سرانجام دینے والی خواتین کے کام کو سراہیں۔
ایوارڈ حاصل کرنے والوں کا اعلان رواں سال 20 اکتوبر 2021ء کو امریکی دارالحکومت میں یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کی جانب سے منعقدہ تقریب میں کیا جائے گا۔
تبسم عدنان کی ذاتی زندگی پر بات کی جائے تو انہوں نے بڑے مشکل حالات دیکھے۔ محض 13 سال کی عمر میں ان کی شادی کر دی گئی تھی، ان کا شوہر ان سے عمر میں 30 سال بڑا تھا۔ یہ شخص ان کو سالوں تک ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بناتا رہا۔
تبسم عدنان پاکستان میں خواتین کے پہلے جرگے خویندو جرگہ کا قیام عمل میں لائیں، اس کے ذریعے خواتین کو بروقت انصاف کی فراہمی اور برادریوں کے امن و استحکام میں حصہ ڈالنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ خویندو جرگہ اب تک تشدد کے 2 ہزار سے زائد واقعات حل کرچکا ہے۔
تبسم کا کام ان کا کام روایتی اور ریاستی اداروں کے درمیان فرق ختم کر دیتا ہے۔ وہ جنسی تشدد سے بچ جانے والی متاثرین کی صحت، وراثت، صنفی بنیاد پر تشدد، خواتین کی معیاری تعلیم کے لیے بھی کام کرتی ہیں۔
تبسم نے سوات میں خواتین کا پولیس سٹیشن کھولنے کے لیے مقامی حکام کے ساتھ تعاون کیا ہے اور وہ وہاں تنازعات کے حل کے لیے ایک علیحدہ کونسل کی صدارت کریں گی۔ انہیں اپنے کام کے لیے بین الاقوامی سطح پر پہچان ملی ہے، جس میں 2015 میں امریکی محکمہ خارجہ کا بین الاقوامی خواتین جرات ایوارڈ بھی شامل ہے۔