پاکستان میں چارٹرڈ ٹیکس انسٹی ٹیوٹ کے قیام کی اشد ضرورت ہے

ٹیکس کے میدان میں یہ حقیقت ہے کہ ایک بھی تعلیمی ادارہ ایسا نہیں جہاں اس پر تحقیق کی جاتی ہو۔ ٹیکس ہمارے کالج اور سکول کے نصاب میں شامل ہی نہیں۔ اس کو چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس کی طرح پیشہ بنانے کے لیے ایک ادارے کے قیام کی اشد اور فوری ضرورت ہے۔

پاکستان میں چارٹرڈ ٹیکس انسٹی ٹیوٹ کے قیام کی اشد ضرورت ہے

ٹیکس کے میدان میں یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں ایک بھی تعلیمی ادارہ ایسا نہیں جہاں اس پر تحقیق کی جاتی ہو۔ ٹیکس بطور ایک مضمون ہمارے کالج اور سکول کے نصاب میں شامل ہی نہیں۔ اس کو چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس کی طرح پیشہ بنانے کے لئے ایک ادارہ بنانے کی اشد اور فوری ضرورت ہے جس کے لیے قانون سازی کی ضروت ہے۔

پاکستان میں نظامِ محصولات میں اصلاحات کا بڑا تذکرہ کیا جاتا ہے، مگر حقیقی معنوں میں یہ محض ایک نمائشی عمل ہے۔ حکومت پاکستان نے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے اجرا سے لے کر آج تک انفرادی اور کارپوریٹ انکم ٹیکس نظام میں خرابیاں ہی پیدا کی ہیں اور کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے بہتری کا کوئی بھی پہلو نکلتا ہو۔ یہی حال تمام بالواسطہ ٹیکسز کا بھی ہے جس میں ٹیکس کا بوجھ عام عوام پر ہی بڑھتا جا رہا ہے۔

پی ڈی ایم کی حکومت نے اپنے دوسرے اور آخری بجٹ میں فنانس ایکٹ 2023 کے ذریعے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 میں ترمیم کے ذریعے 'انٹرنیشنل سینٹر آف ٹیکس ایکسیلنس' کے قیام کا عندیہ دیا، جس میں سیکشن 230J کے مطابق محض ٹیکس افسر شاہی (Revenuecracy) کے لوگ ہی شامل ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک بار اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے سیاست دان نوکر شاہی کی پرورش پر معمور ہیں اور ان سے کسی بھی عوام دوست قانون یا پالیسی کی توقع بے کار ہے۔

غیر ملکی قرضوں اور امداد سے اصلاحات کا 6 سالہ منصوبہ 'ٹیکس ایڈمنسٹریشن ریفارمز پروجیکٹ' جس میں ملکی اور غیر ملکی ماہرین نے حصہ لیا، ناکامی سے دوچار ہوا۔ ملکی محصولات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور نہ ٹیکس گزاروں کے لیے کوئی سہولت پیدا ہوئی۔ یہ سلسلہ آج بھی ویسے کا ویسا ہی ہے جب حکومت پاکستان نے ورلڈ بینک سے ٹیکس میں اضافہ کرنے اور اصلاحات کے نام پر 500 ملین ڈالرز کا قرضہ حاصل کیا ہے۔ ایف بی آر اصلاحات کی راہ میں خود سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور جب تک اس ادارے کو ختم کر کے ایک قومی سطح کی جدید اور پیشہ ور نیشنل ٹیکس اتھارٹی قائم نہیں کی جاتی، بہتری کے امکانات محدود بلکہ معدوم رہیں گے۔

ہر سال ٹیکس نوکر شاہی کے کچھ کرتا دھرتا اور ان کے من پسند 'ماہرین' اصلاحات کے نام پر نظام میں مزید خرابیاں پیدا کرتے ہیں۔ یہ خفیہ طرز کا عمل ہوتا ہے جس میں عوامی رائے اور عوام کے حقیقی نمائندگان کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ اس خفیہ کام کی بدترین مثال ستمبر 2014 میں قائم کردہ ٹیکس ریفارمز کمیشن کی رپورٹ کو عوام سے تاحال چھپانا ہے۔ اگر اس رپورٹ کا مقصد اصلاحات ہے تو پھر اسے خفیہ رکھنے کا کیا جواز ہے؟ اس کا جواب نہ تو کسی وزیر خزانہ نے دیا ہے اور نہ ہی ایف بی آر نے، اور نہ ہی خود کمیشن کے سربراہ نے۔ درحقیقت اس موضوع پر سیرحاصل بحث ہونی چاہئیے تھی تاکہ نظامِ محصولات کو درست کرنے کے لیے اجتماعی کوششوں کا آغاز ہو سکے۔

یہ رویہ ناقابلِ فہم ہی نہیں، قابلِ مذمت بھی ہے کہ ایسی رپورٹوں کو خفیہ رکھا جائے۔ حکمران تیل کی قیمتوں میں غیر مناسب شرح سے بلاواسطہ ٹیکسزکے نفاذ اور عام ٹیکس گزار سے ناجائز محصولات کی وصولی اور ریفنڈز کو روک لینے کے عمل کو ہی اپنا طرۂ امتیاز سمجھتے ہیں۔

اگر ہماری توجہ معاشی ترقی کی رفتار کو 8 سے 10 فیصد کرنے پر مرکوز ہوتی تو ٹیکس کی وصولی دوگنا سے بھی زیادہ ہو سکتی تھی۔ اگر ٹیکس کی شرح کم کر کے تمام نادہندگان سے گوشوارے لیے ہوتے اور تمام مراعات ختم کر دی جاتیں تو پھر یہ وصولی کم از کم چار گنا ہو سکتی تھی۔

کاروباری حلقوں اور ٹیکس ماہرین سے ہر سال بجٹ کے موقع پر تجاویز لی جاتی ہیں، مگر ایف بی آر کے دانشور وہی کرتے ہیں جو اُن کی مرضی ہو۔ یعنی اعداد و شمار کا گورکھ دھندا پیش کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ ان ناعاقبت اندیش پالیسیوں کے نتیجے میں معاشی ترقی میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو سکا۔ محصولات کی وصولی اصل استعداد سے بہت کم رہی۔ اس کے باوجود ہر وزیر خزانہ داد و ستائش کے ڈھول بجاتے رہتے ہیں اور ایک نامی گرامی چار مرتبہ یہ عہدہ حاصل کرنے والے تو حسن کارکردگی کا تمغہ تک اپنے نام کر چکے ہیں۔ کاش وہ اپنے قائم کردہ کمیشن کی 2023 کی رپورٹ ہی پڑھ لیں جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اصل استعداد 15 کھرب روپے سے کم نہیں اور ایف بی آر پچھلے برس محض 7 کھرب سے کچھ ہی زیادہ روپے جمع کر پایا ہے۔ اس میں بھی 500 ارب کی وصولی ریفنڈز روک کر اور بڑے اداروں سے ایڈوانس لے کر ظاہر کی گئی ہے۔

پاکستان میں اب بیرونی سرمایہ کاری کے امکانات نمایاں ہو رہے ہیں۔ چین پاکستان کے معاشی راہداری کے منصوبے میں تیز رفتاری چاہتا ہے۔ بنیادی ڈھانچہ درست ہونے کے بعد یعنی توانائی اور سڑکوں کے جال کے منصوبوں کی تکمیل ہونے پر پاکستان میں اس قدر اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری ہو سکتی ہے کہ معاشی ترقی کا ایک نیا باب کھل سکے۔ ان حالات کو حقیقی معنوں میں تمام شہریوں کے مفاد اور ملکی ترقی کے لئے سود مند بنانے کے لئے ہمیں نظام محصولات کو سادہ بنانا ہو گا۔ کاروبار کی سہولت کا نیا نظام وضع کرنا ہو گا۔ تمام لوگوں کے لئے مساوی مقابلے کا ماحول قائم کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ اپنے لوگوں کو فنی تعلیم دینی ہو گی۔ کیا ادارے ان سب کاموں کا ارادہ کر چکے ہیں؟ ارادہ کرنا ہی کافی نہیں، اس کے لئے کوششوں کا آغاز آج سے شروع کرنا ہو گا۔ ٹیکس کے میدان میں یہ حقیقت ہے کہ ایک بھی تعلیمی ادارہ ایسا نہیں جہاں اس پر تحقیق کی جاتی ہو۔ ٹیکس ہمارے کالج اور سکول کے نصاب میں شامل ہی نہیں۔ اس کو چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس کی طرح پیشہ بنانے کے لیے ایک ادارے کے قیام کی اشد اور فوری ضرورت ہے۔

برطانیہ، ملائیشیا، گھانا اور کئی ممالک جیسے کہ نائیجیریا تک میں ایسے ادارے موجود ہیں جن میں خالصتاً ٹیکس کی تعلیم اور تحقیق کا کام کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ہزاروں نوجوان ہر سال ٹیکس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے حکومتی اور نجی اداروں میں ملازمت کر سکتے ہیں۔ ہر سال ہمیں 20 سے 25 لاکھ نوکریاں صرف نوجوانوں کے لئے پیدا کرنی ہیں۔ اس کے لیے معاشی ترقی کی رفتار کم از کم 10 فیصد سالانہ ہونی چاہئیے۔ سرمایہ کاری بھی مجموعی قومی پیداوار کا 25 فیصد ہونی چاہئیے۔ اگر ٹیکس کا نظام ہی پیداواری صلاحیتوں میں رکاوٹ کا باعث ہے تو اہداف کیسے پورے ہوں گے؟ چینی یا اور بیرونی سرمایہ کار تو اپنا منافع یہاں سے واپس لے جانے میں دلچسپی رکھیں گے۔

ہم پاکستانیوں کو اپنی ترقی کے لیے خود کام کرنا ہو گا۔ نوجوانوں کی صلاحیتوں کو آج کی دنیا کی ضروریات کے مطابق بڑھانا ہو گا۔ نئی سے نئی جدت طرازی کے بغیر آج کی دنیا میں معاشی ترقی اور خود انحصاری ایک خواب ہے۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ 76 سالوں میں ہم ایک ادارہ نہیں بنا سکے جہاں ٹیکس پر تحقیق کر کے جدید اورقابل عمل متبادل پیش کیے جا سکیں اور اس کے علاوہ نوجوانوں کو اس مضمون میں اسناد دے کر پیشہ ور بنایا جا سکے۔ سرکاری عہدہ دار اس مضمون میں جو انتہائی پیچیدہ ہے، کوئی تحقیق نہیں کرتے بلکہ 99 فیصد تو اس میں سند یافتہ بھی نہیں۔ یہ کام یونیورسٹیوں میں ڈاکٹریٹ کی سند کے حامل اساتذہ کا ہے۔ ان کو تحقیقی مقالہ جات تیار کر کے پیش کرنے چاہئیں تاکہ پالیسی ساز ان کی مدد سے نظام کی تشکیل نو کر سکیں۔ صنعتوں اور کاروباری حضرات کو ایسی تحقیق سے فائدہ اٹھانا چاہئیے اور تربیت یافتہ ٹیکس ماہرین کو ملازمتیں دینی چاہئیں۔ جب ٹیکس دینے والے اور ٹیکس لینے والے تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت سے عاری ہوں تو نظام چل ہی نہیں سکتا۔ اس شعبہ میں صلاحیتوں کو بڑھانے کے لئے چارٹرڈ ٹیکس انسٹی ٹیوٹ کا قانون جلد از جلد پاس کرنا چاہئیے۔

مضمون نگار وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ دونوں متعدد کتابوں کے مصنف ہیں اور LUMS یونیورسٹی کی Visiting Faculty کا حصہ ہیں۔