جھوٹ کے پنے تو بہت ہی چمکیلے ھوتے ھیں۔ ان کی چمک سے آنکھیں چندھیا جانے کے ساتھ ساتھ قدم بھی لڑکھرانا شروع ہو جاتے ھیں۔ جونہی ادھر قدم ڈگمگائے، ادھر زبان کی استقامت بھی جانا شروع ہو جاتی ھے،جو کہ ایک تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے۔ جب بھی زبان کی لڑکھڑاہٹ کھنکتی ہے، توتب ہی آنکھیں چندھیا جانے کی وجہ سے آپ پلک جھپکنے سے پہلے ہی زمین بوس ہوتے جاتے ہیں اور یہاں پر آپ دوسرے تکلیف دہ مرحلے کے داہنے پر ہوتے ہیں ۔ اگراس جگہ پر آپ زمین بوسی کا معنی سمجھ گئے یا آپ کی ناقص العقل پر زمین بوسی کے معنی مسلط ہو گئے تو سمجھوآپ راست گوئی کے راہی بن چلے- برعکس اس کے ،یہ کہ اگر خاک ریزی کو محض اتفاق اور حادثہ گردانا تو ابد تلک یہی زبان،آنکھ اورقدم اکھڑتے ہی رہیں گے- اسی کو پہچان گنوانا کہتے ہیں۔
جھوٹ میں سکون نہیں ہے۔ جیسے صحرا کے خشک ٹیلے ہوں یا ساحل کی گیلی ریت دونوں پر پل بھرمیں گھروندے تو بن جاتے ھیں۔ پرکبھی سچ کی ہوا اورکبھی سچ کا ریلا آکر ان گھروندں کو بہا اور اڑا کر لے جاتا ہے۔ جب ہم ریت پر گھروندے نہیں بنا سکتے، تو محل،قلعے اور جھونپڑے کیسے تعمیر کر سکتے ہیں؟ سچ کے سامنے پوری دہر و زیست کی بساط نہیں جو ٹس سے مس ہو سکے۔ صدق نے کیا کہا ہے کہ۔
"جھوٹ کی کمائی سے لی گئی شفاء کی دوا اور کی گئی دعا بھی تریاق ثابت نہیں ہوا کرتی"۔
ورلڈ بنک کے مطابق پاکستان،دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ جس میں 64 فیصد 30 سال سے کم افراد ہیں۔ اتنی آبادی، آزادی کے 73 سال گزرجانے کے بعد بھی اپنے بیش بہا قدرتی ذرائع سے مستفید نہ ہو سکی۔ ہم نے اب تک اپنے ملک میں سرمایہ کاری کو وسعت دینے کے لئے آبادی اور قدرتی ذرائع سے کاروبار اور کاروباری نظام کو کوئی ترقی نہیں دی۔
پاکستان انسٹیٹوٹ آف ڈولپمینٹ اینڈ اکنامکس اسلام آباد کے ویبینار میں وائس چانسلر جناب ندیم الحق صاحب ہمیں ان نقاط کو دیکھانا چاہ رہے تھے جواعدادوشمار کے ضامن تھے، اور یہ بھی فرمایا کہ ہمارے پاس کچھ بنیادی اقدامات نہیں ہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں کون سے کاروبار پھل پھول نہیں پاتے ۔ جن میں سے کچھ یہ ہیں۔ ہمارے کریڈٹ جی ڈی پی کا تناسب انتہائی کم ہو کر صرف 18 فیصد رہ گیا ہے، جبکہ انڈیا اور بنگلادیش ہم سے بارہا بہتر ہیں۔ ہمارے پاس دیوالیہ پن سے نمٹنے کے لیے اچھے قوانین کی مکمل کمی ہے۔ ہمارے ہمسایہ ممالک کے مقابلہ میں ہماری حکومت کی بینکاری کے شعبے سے اعلی قرض کی مانگ ہے۔
جناب اسپیکرنے ہمیں اپنے نظریات کی روشنی سےآگاہ کراتے ہوئے کہا کہ پاکستان ابھی تک کیوں کاروباری فضاء کو مستحکم کرنے میں ناکام ہے۔ 1986ء میں ہماری برآمدات تین اشاریہ آٹھ بیلن ڈالر تھی، جبکہ ویت نام کی صفر اشاریہ آٹھ میلن ڈالرتھی۔ مگراب پاکستان کی صورتحال یہ ہے کہ برآمدات صرف 24بیلن ڈالرہے اور ویت نام کی 264بیلن ڈالر۔ مزید یہ کہ پاکستان 6 بار اپنی برآمدات کو بڑھانے میں کامیاب رہا اور اس کے برعکس ویت نام 330بار اپنی برآمدات کو بڑھانے میں کامیاب رہا۔ اسی طرح ہم اپنے باقی شعبوں کو بہتر بنانےمیں بھی ناکام رہے۔ ہماری بڑی کمپنیوں کا سرمایہ تقریبًا دواشاریہ آٹھ بیلن ڈالرہے جبکہ انڈیا کا 13بیلن ڈالر ہے۔ ہم برآمدات کے شعبے کے ساتھ ساتھ اپنی مالی طاقت کو بہتر بنانے میں ناکام رہے۔
بہت سارے سوالات اٹھائے، دہرائے اورجتائے گئے جیسے کہ،ثقافت،فرسودہ نظام کی پیروی(اولڈ ماٰئنڈ سیٹ) ترقی کی راہ میں بڑی روکاٹیں ہیں۔ ترقی کے میناروں کو اونچا بنانے کے لیے بنیادوں کا مضبوط ہونا ضروری ہے اور وہ تب ہی ہو سکتا ہے جب انفرادی سوچ کوترقی کی راہ پر گامزن کرنے سے پہلے، ترقی کی روشنی سے آگاہ کروایا جائے۔ اگربین الاقومی سطح پر دیکھا جائے تو وہ اپنی پیشہ ورانہ مہارتوں اور صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے اخلاقیات کی فضاء پر کثیرتعداد میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں، بین الاقومی تو کیا پشیہ ورانہ صلاحیتوں کو اخیتار کرنے کی بجائے اپنی ناکامیوں کا سہرا حکومت کو پہنایا جاتا ہے۔ یہاں ہم دنیا کے فریبوں سے نکلنے/بچنے کے طریقے تو تلاش کرتے ہیں پر صد افسوس خود فریبی سے نکلنے کا کوئی بھی اصول اپنانے کو تیار نہیں ہوتے۔ جب ہم خود فریبی کے چنگل سے باہر جھانکیں گے تو ہمیں پیشہ ورانہ مہارتوں کی فضاء نظر آئے گی۔
"Save street to State and State to the Seven Layers of the Atmosphere".
ایجادات اور کاروبار کے فروغ میں کمی کرتے ہوئے ڈنڈی مار کر پگڈنڈی پر دوڑنے کی بےجا خواہش میں مبتلا بھی کبھی بین الاقوامی میدان میں حصہ لینے کے خواہاں ہوئے؟ جبکہ ، جہاں بین الاقوام ہر لمحہ اپنے کاروباری نظام کو بڑھوتری دینے کے لیے سرگرداں رہتی ہیں۔ یہاں ہم ابھی تک یہ نہیں سمجھ پائے کہ نئے نئے راستے تلاش کرنے میں مگھن رہنے سے ہی منزلیں نظر آیا کرتی ہیں۔ ایف بی آر کی روکاوٹوں پر بات کی گئی کہ یہ ترقی کی آب و ہوا کو پھلنے پھولنے سے روکے ہوئے ہیں ، یہاں پربد عنوان اور نا اہل عناصر بقاء پر کام کر رہے ہیں جوکہ کاروباری نمو کو گہنائے ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں کاروباروں کے تحفظ میں کمی ہے، بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے اور اب بھی ہم پرانے نو آبادیاتی قوانین کے متمنی بھی ہیں۔ نئے کھلاڑی مارکیٹ میں قدم رکھنے سے گھبراتے ہیں، کیونکہ بیوروکریسی ( افسرشاہی) حکومت اور حکام کے لیے بھاری رشوت میں روابط استوار کرنا پڑتے ہیں۔ اصل میں حکومت اشرافیہ کی حمایت کرتی ہے جوکہ حکومتی نظام کی باگ دوڑ سنبھالے ہوئے ہیں۔ پھر ان منتخب حضرات کو مرعات سے نوازا جاتا ہے، جو مارکیٹ کے استحکام کو مزید برباد کرتے ہیں۔
کب تلک ہم ایک دوسرے کو مورز الزام گردانتے ہوئے صفحے کالے کرتے رہیں گے؟ آخر کب تک عوام الناس، حکومت کا اورحکومت،عوام الناس کا وقت رائیگاں کرنے پر تلے رہیں گے؟
ہاں ہمیں اس پہ عمل پیراء ہونا چاہیے کہ
We need Deep Rethink of our Growth Policy
جب تک افرادی قوت اپنے اوپریہ فرض نہیں کر لیتی کہ وہ معشیت کے سارے شعبوں کی ساکھ ہیں، اور ان کی دھاندلی سے شعبوں کی تو کیا ملک کی ساکھ داؤ پر لگ جائے گی، تب تک حکومت اور عوام الناس مل کر بھی کچھ نہیں کر سکتیں گے۔ اگر افرادی قوت حکمران چننےکی طاقت رکھتی ہے، توافرادی قوت ہرشعبےکو ستارہ بھی بنا سکتی ہے۔ یہی افرادی قوت اپنے ملک کو محور نہیں سمجھے گی تو low growth کے گردابوں کے عذابوں سے بین الاقوام کی امداد کیا نکالے گی؟ صدق کہتا ہے کہ
قلم کاری کی ضرورت ہے، قلم کاری کے نگر میں
مولانا وحیدالدین نے فرمایا کہ " ترجیح بڑی کامیابیاں لاتی ہے"اور " ہم ڈیوٹی کانشیئس تو بننے کو تیار نہیں پر رائیٹ کانشیئس اتنے ہیں کہ اس کے لیے سڑکوں پر نکل آتے ہیں"۔ ہمارا ملک ہی ہماری ترجیح تھا، ترجیح ہے اور ترجیح ہونا چاہیے۔
جب انسان اپنی نظروں میں، اپنے سامنے کھڑا ہو گیا تو سمجھو اس نے پروردگارعالم کی نظروں میں مقام اورقیام کر لیا، پھر وہ ہر مکاں اور جہاں کا مکیں بن گیا۔ اسی مقام کا نام انسان کی اصل پہچان ہے-
ہماری یہی تمنا اور کوشیش ہونی چاہیے کہ ، ہمارے اور ہمارے فیصلوں کے درمیان لاشریک کے سوا کوئی نہ ہو۔ تب ہی صفحہ ہستی پر پہچان گنوانے سے بچا جا سکتا ہے۔