جہان گزراں

جہان گزراں
یہ اس زمانے کا تذکرہ ہے جب خط اغوا ہوتے تھے اور آدمی طلب کیے جاتے تھے مگر لوگ مرغزاروں میں آزادی سے روشوں پر گھومتے تھے، راوی سکھ اور چین ہی لکھتا تھا لوگ امن سکون کے ساتھ رہتے اور صبر کے پھل کو حاصل حیات سمجھتے۔

کیسی رواداری اور برداشت کا دور تھا اُن دنوں فرقوں کا ذکر ہی کیا مذاہب کے درمیان بھی کیسی ہم آہنگی تھی یعنی ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا سلیقہ تھا۔

اس دور میں ادیان عالم کے نام پر مار دھاڑ کو نفرت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، کرشن نگر کے محلے کو اسلام پورہ نام کا چغہ نہیں پہنایا گیا تھا اور حسین پورہ کا باسی اکرام اللٰہ ایس بی ( سردار بہادر) حکم سنگھ روڈ پر اپنے دوست ست پال کی دکان پر دوسرے دوست کپل دیو سے گپ بازی کرنے جاتا تھا۔

اکتوبر 1950 میں اُسی کپل کے ملنے والے خط سے اس داستان کو شروع کر کے اکرام اللٰہ نے اُلٹے قدم چلتے ہوئے اپنی جوانی، لڑکپن اور بچپن کے ایام کے منتشر اور چنیدہ واقعات کو قلمبند کر کے جہانِ گزراں کا نام دیا ہے۔

کپل کے ساتھ مل کر ہی اکرام اللٰہ نے سرخ سویرا کے طلوع ہونے کا جو خواب دیکھا تھا وہ کم و بیش ایک تہائی صدی کے بعد بھی اکرام صاحب میں انسان دوستی کی صورت موجود ہے مگر اشتراکیت کو سرمایہ درآنہ نظام نے کب جیتنے دیا ہے جو اکرام صاحب کا یہ خواب پورا ہوتا۔

جہانِ گزراں میں خود نمائی کا کوئی ذکر ہی نہیں جو اکثر اُردو خود نوشتوں کا طرہ امتیاز ہے بلکہ شاہراہ حیات پر ملنے والے دوستوں کا احوال بیان کرتے ہوئے اکرام صاحب نے اپنے حوالے سے نفیِ ذات کو ترجیح دی ہے۔ .

بھائی اور باپ کے غصے کو تو کپل کسی طور برداشت کر ہی رہا تھا مگر بھابھی کے طعنوں نے کپل کو امرتسر سے بغیر ٹکٹ کے دہلی جانے والی گاڑی پر سوار ہونے کے لۓ مجبور کر دیا اس بچگانہ مہم جوئی کا خاتمہ کچھ دنوں بعد ہونا ہی تھا کپل کا باپ اُسے دہلی سے لے آیا اور امرتسر سکول میں نام درج کروا دیا جہاں اپنی ذات میں اسیر اُداس اور گم سُم کپل سے اکرام اللٰہ کی دوستی کا آغاز ہوا۔

اکرام صاحب بھی عشروں سے کپل سے رابطے نہ ہونے کی وجہ سے اس یقین کو گمان تسلیم کرتے ہیں کہ کپل کی باغیانہ سوچ کو دبانے کے لیے بہت پہلے پڑوسی ملک کی حکومت نے اسے ہمیشہ کے لیے خاموش ہی نہ کر دیا ہو، کپل کی یاد کی کَسک اب ستر برسوں بعد بھی اکرام صاحب کو ہوا کے جھونکوں کی مانند اُداس کر جاتی ہے۔

یادوں کے کئی اور چراغ بھی اکرام صاحب نے اپنی ذات کے خلوت خانے میں رشیدہ اور نینوں کی صورت میں روشن کر رکھے ہیں، دسمبر کی یخ بستہ دھندلی شاموں میں ان چراغوں کی نیم مردہ روشنی آدھ صدی سے اکرام صاحب کو اُداس کر جاتی ہے مگر اب جہانِ گزراں کی صورت میں مصنف نے اعترافی بیان قلمبند کر کے ہم کو بھی اپنا واقفِ حال کر دیا ہے۔

نینوں کو سٹیشن پر الوداع کرنے کا منظر ذاتی کرب کے علاوہ ہم کو رنج و ملال کی کیفیت سے بھی دوچار کر جاتا ہے، "ریل کی سیٹی بجی ہماری آنکھیں ملیں اس کے ہونٹوں کے کنارے اور ناک کی پھننگ تھرائی پیشانی آنکھوں اور پورے چہرے پر پہلے اک موج سے چڑھی اور دوسرے لمحے اترتے اترتے اتر گئی، نینوں پگھلی میری آنکھیں نم ہوئیں

سلانوالی ریل سٹیشن کا بھی تو ایک اور دلگداز منظر شاہ پور کی باسی کلی کے حوالے سے ہے جس کا بچپن بن ماں باپ کے بغیر اپنی نانی کے ساتھ گزرا، نانی کی وفات کے بعد ملکِ خدا وسیع تو اگرچہ بہت تھا مگر کلی سی گل بدن کے لۓ ارضِ خدا کے ساتھ ساتھ مخلوقِ خدا نے بھی اس کے لیے عرصہِ حیات تنگ کر دیا وہ سلانوالی کچھ دنوں کے لۓ اپنی خالہ کے پاس اکرام صاحب کے پڑوس میں آئی،

"میں نے اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں دبا لیا میرے آنسو بہہ رہے تھے اتنے میں دروازے میں کھڑے تلک کی آواز آئی کلی دیدی آ جاؤ ماتا جی بلا رہی ہیں۔ میرے بالوں میں اس کا ہاتھ ایک بار پھرا اور وہ چلی گئی پھر نہ خود لوٹی نہ کوئی خبر دی، پتہ نہیں زندہ ہے کہ مر گئی۔ اسے گئے ہوئے اسی برس ہو گئے ہیں ، وہ میرے دل میں ویسی ہی حسین، شگفتہ اور تر و تازہ کھڑی ہے۔

مگر ایک شاخِ نہال غم جسے دل کہیں سو ہری رہی۔ کوئی پون گھنٹہ گزرا ہو گا کہ ریل کی سیٹی بجی تو میں نے جانا کہ گاڑی اب سلانوالی کے اسٹیشن سے کلی کو لے کر نکل رہی ہے۔ میری آنکھیں بھر آئیں
صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیر
ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا "
کرشنا جس کے سانولے رنگ کی وجہ سے اُس کے شوہر نے بھی اُسے تیاگ دیا تھا مگر اسی سانولے من بھانولے رنگ کی وجہ سے وہ کسی کی آنکھ کے لۓ بن محمل کے لیلیٰ ٹھہری.
مگر!
یہ دنیا رنگ رنگیلی بابا

کرہ ارض پر دوسری عالمی جنگ اپنی تمام تباہ کاریوں کے ساتھ مسلط ہوئی کون ظفر مند ٹھہرا اور کون ہارا، تاریخ اس بات کا فیصلہ کرے گی مگر روئے زمین پر لاکھوں کروڑوں نائب اللٰہ اس جنگ میں ایٹم بم کے لئے تجربہ گاہ ثابت ہوئے، اس فعل پر رات شرمندہ ٹھہری اور صبح کا دامن چاک ہوا آسمان سے کالی بارش کا نزول ہوا، انسانیت کا ذکر کیسا جب انسان کا وحشی ہونا اپنی معراج پر پہنچ چکا تھا۔ قحط بنگال اور جلیانوالہ باغ کے دوران اور بعد میں اکرام اللٰہ نے انسانی رویوں، مجبوریوں اور ضمیر کے درمیان کشمکش کو جس بے حسی کا نام دیا ہے اسے انگریزی سامراج سے نجات اور تقسیم ہند کی جانب ایک نمایاں پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے۔

لیکن!
یہ دنیا رنگ رنگیلی بابا

صدیوں کا بھائی چارہ دشمنی میں بدلنے والا تھا، اجداد کی قبروں سمیت سینکڑوں سال کی وارثت اور تہذیب کو چھوڑ کر شکستہ پا رنجیدہ دل قافلوں کو جان کی امان پاتے ہوئے دوسرے ملک جانا تھا، برصغیر کے نقشے میں دراڑیں پڑنے والی تھی مگر شاہجہاں ہوٹل امرتسر کے باہر کھڑا رہنے والا نوجوان خاموشی کے حصار میں بند اور تنہائی کے محفوظ اور لازوال قلعے میں خود ساختہ مقید دنیا کو بازیچہ اطفال سمجھتے ہوئے آزادی یا تقسیم کے گونجتے نعروں سے بےخبر جانے کیا تماشا دیکھنے میں مگن رہتا۔

امرتسر میں اکرام صاحب کے محلے میں فوجی وردی پہن کر ٹہلنے والا مانک شاہ سقوط ڈھاکے کے وقت بھارتی فوج کا سربراہ تھا، کل کا پڑوسی آج کی دشمن سپاہ کا سربراہ ٹھہرا۔

وطن سے بچھڑے اکرام اللٰہ کو ابھی فقط آٹھ سال ہی ہوئے تھے کہ 1956 میں وہ لاہور سے براستہ امرتسر دہلی کے لیے روانہ ہوئے روز ملنے والوں کو بھی کپل کی خبر کب تھی جو اکرام صاحب امرتسر میں چند گھنٹوں کے قیام میں کپل کو ڈھونڈ پاتے ست پال سے ملے ضرور مگر زمانے کے تھپیڑوں نے اس کو وقت سے پہلے ہی نڈھال کر دیا تھا، وہ ملنے سے گریزاں تھا اکرام صاحب اُس سے کپل کے بارے جاننا چاہتے تھے، امرتسر سے دہلی جانے والے گاڑی نے سیٹی بجائی ست پال نے اکرام صاحب کو سوار کیا۔ پندرہ روز بعد دہلی سے لاہور جانے والی گاڑی نے پھر اسی اسٹیشن پر چند گھنٹوں کے لیے رکنا تھا، اکرام صاحب نے ست پال سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا مگر ست پال پندرہ روز سے پہلے ہی ایک حادثے کا شکار ہو کر ملک عدم آباد کے لیے کوچ کر گیا، اکرام اللٰہ کو خالی ہاتھ تو لوٹ آنا ہی تھا وہ ست پال کی موت کی کسک بھی ساتھ لائے۔

طلوع ہونے والے اُفق میں عالمی سطح پر تبدیلیوں کے رونما ہونے میں کچھ وقت تھا مگر شاعری کے اُفق پر فیض کی نقش فریادی کی دھوم تھی، دیوان خانوں سے بالا خانوں تک "دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کے" کی گونج سنائی دیتی تھی، اُدھر فیض و اقبال کے اُستاد میر حسن کے عزیز میر عبدالقیوم اکرام صاحب کے سکول کے کرتا دھرتا تھے، کتاب،چاند چکور کا قصہ اور مناظر فطرت اکرام صاحب کا جی لبھانے میں مگن تھے۔

ادھر سیف الدین سیف، ظہیر کاشمیری، احمد راہی اور شہزاد احمد کی شاعری امرتسر سے نکل کر دوسرے شہروں سے چھپنے والے جرائد میں شائع ہونے لگی، امرتسر کے غیر معروف شاعر نفیس خلیلی کا یہ شعر آج بھی اپنے باطنی مفہوم کے لحاظ سے کیسی چھبن لیے ہوئے ہے۔

 دیکھتا کیا ہے میرے منہ کی طرف
قائد اعظم کا پاکستان دیکھ

پنڈت نہرو سا باوقار اور پرکشش لیڈر جب امرتسر آیا تو مصنف سمیت ہزاروں لوگ اُن کی ایک جھلک اور بھاشن سننے کے لۓ بیتاب تھے۔ پنڈت جی کوڑے کچرے اور غلاظت کے ڈھیر دیکھتے ہوئے امرتسر کے گلی کوچوں سے گزر کر جلسے گاہ تک آئے تھے، مائیک پر پہنچتے ہی مشرق اور مغرب کے طرز معاشرت کا تقابل کرتے ہوئے اہل امرتسر پر خوب گرجے برسے، کہانی کے اس موڑ پر منتشر یادیں براستہ موگا اور نھنیالی گاؤں سے اکرام صاحب کو سلانوالی لے گئیں، جہاں اُن کے والد بطور سرکاری ڈاکٹر کے کچھ مدت مقیم رہے۔

مصنف کے والد ڈاکٹر صاحب کا تبادلہ 'موگا' ہوا، چھوت چھات کے حوالے سے ابھی رواداری تھی، مذہب صرف ابھی احتیاط کا نام تھا، شدت پسندی یوں غالب نہ تھی کہ لوگوں کی لاشیں گننا پڑیں، شیخ حسن اور پنڈت بالک رام موگا میں کاروبار حیات سے فراغ پا کر درختوں کو پالتے اور چرند پرند سے محو گفتگو رہتے ہوئے ایک ہی مکان میں سکونت اختیار کیے ہوئے تھے۔

شیخ و برہمن کی طرف سے تحفے میں ملنے والا اعلیٰ نسل کا کتا بنام پیٹر آج بھی اکرام صاحب کی یاداشت کا حصہ ہے۔ شیخ و برہمن کی داستان خود دلچسپی کا ساماں لیے ہوئے ہے مگر ہمارے مصنف کی بچپن کی ضد نے بھی اُس میں کچھ اس ادا سے رنگ بھرا کہ جنت میں بھی پیٹر کے بغیر جانے سے انکار کر دیا۔ موگا کے کھیل کے میدان میں میں گرَد اُڑاتے ہوئے بچوں میں اکرام صاحب کا بچپن بھی کبھی پتنگ اُڑاتے ہوئے اور کبھی سائیکل سیکھتے ہوئے گم ہوا، کسی کی انگلی پکڑ کر نیم پختہ راستوں پر چلنے والے اکرام اللٰہ نامی بچے کو شاہراہ حیات پر کئی محازوں پر بیک وقت لڑتے ہوئے اس بے رحم اور نامہرباں دنیا سے طویل برسوں تک برسر پیکار رہنا تھا، وہ باپ کے تحڪمانہ انداز کے ساتھ تو بچپن سے جینے کے عادی تھے مگر زندگی کے ٹھوس حقائق اور سنگدل سچائیوں سے اُن کا واسطہ کبھی نہ رہا کسی ہمدرد کے مرنے سے اس کمینی دنیا میں ایک سچے بہی خواہ کی بے لاگ محبت اور نیک خواہشات کے چھن جانے کی جان لیوا کیفیت کو ہمارے مصنف نے میاں جی یعنی اپنے نانا کی وفات پر محسوس کیا۔

تیس کی دہائی کے آخری برسوں میں ڈاکٹر صاحب کا خانوادہ مع پیٹر کے سلانوالی کے سٹیشن پر اُترا فضا کثافت کے بوجھل پن سے بغیر خنک ہواؤں اور موسم کی فصلوں کی مہک لیے ہوئے تھی، شہر کے مغربی کنارے پر وسیع نہر کا پانی اُن دونوں صاف تھا جس کے کنارے اکرام صاحب پیٹر کی رفاقت میں صبح کی اولین کرنوں کی نارنجی روشنی میں سیر کرتے۔

سلانوالی لکڑی کے کام کے لئےاُس زمانے میں مشہور نہ تھا بلکہ گلاب سنگھ کی روئی کے کارخانے شہر کی دور دور تک پہچان تھے۔ گلاب سنگھ کا بیٹا شملہ یا نینی تال پڑھتا تھا، چھٹیوں میں اُس کی آمد پر وہ اور اکرام صاحب اُس کے ریکارڈ کے بیش بہا خزانے سے لطف اندوز ہوتے، رام لیلا بچپن سے بار بار دیکھ کر اکرام صاحب کے لئے قابل توجہ نہ رہی تھی، وہ ٹربیون میں چھپنے والے فلمی اشتہاروں کے چاند چہروں سے دل بہلاتے، سہرا مودی کی پکار کا شہرہ ان دنوں پورے ملک میں تھا مگر سرگودھا کے گوار مسلمان زمیندار دشمنیاں پالے ہوئے تھے۔ غیرت کے نام ہر قتل اُن کا تب بھی شیوہ تھا اکرام صاحب کے سلانوالی میں ایک جاننے والے علی نے بھی غیرت کے نام پر بیک وقت کئئ لوگوں کو موت کی گھاٹ اُتارا۔

اکرام صاحب کے والد کے تبادلے کا حکم نامہ بطور ڈاکٹر مینٹل ہسپتال لاہور جاری ہوا۔ 1937 میں بذریعہ ریل کار سلانوالی اُترنے والا قافلہ 1940 میں ایک بار پھر مع پیٹر بس کے ذریعے لاہور کی جانب محو سفر تھا، لاہور کی ٹھنڈی سٹرک اُس زمانے میں دامنِ دل کو کھینچتی، ملکہ وکٹوریہ کا چیرنگ کراس پر سنگِ سفید کی بارہ دری کے نیچے براجمان مجسمہ سطوتِ شاہی کی علامت تھا، سر لارنس، گنگا رام اور لالہ لجپت رائے کے مجسمے انفرادی سطح پر کامیابیوں کی داستان سناتے اکرام صاحب سینٹرل ماڈل سکول سے چھٹی کے روز جیل روڈ سے نہر کے ساتھ مال روڈ کے چائے خانوں کو جھانکتے ہوئے انگریز راج کی پُرشکوہ عمارات کو دیکھ کر لاہور کے سحر میں گرفتار ہوئے جاتے جوانی کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں جن سے گریزاں رہنا، انسانی سرشت کے خلاف ہے، سلانوالی میں پہلی بار ہی سگرٹ نوشی کرتے ہوئے ہمارا معصوم مصنف رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ باپ کی عدالت میں کیا دلیل معتبر ٹھہرتی سزا کے طور پر وہ مار پڑی کہ خدا کی اماں لاہور میں عمر کے ساتھ بغاوت بھی جوانی پر تھی دھویں کے مرغولوں کے ساتھ تاش کی بازی بھی جمنے لگی۔

مڈو جیسی لڑکی جس کے چہرے پر نہ شفق کا غازہ پھوٹا اور نہ ہی کسی نے گھونگھٹ اٹھایا جو زندگی کو بوجھ سمجھتی تھی، مائی ملنگنی جیسی نفی ذات کی پرچار کرنے والی اور ملک سعید حسن جیسا نازک اندام لڑکا جس کی موت کی جھوٹی خبر کو گھر والوں نے نہ جانے کس مصحلت کے تحت حقیقت بنا کر پیش کیا وہی ملک سعید حسن جب کم و بیش پچاس سال بعد اکرام صاحب کو ملتان ملا تو وہ ماضی کو حقیقت ماننے سے گریزاں تھا سو جذباتیت یا ماضی پرستی کا اتنے برسوں بعد ہونے والی ملاقات میں در آنا محال تو کیا ناممکن ضرور تھا جہانِ گزراں کے ان طویل برسوں میں شاہراہ حیات پر ملنے والوں مڈو، مائی ملنگنی اور سعید حسن جیسے لوگوں نے مصنف کو انسانی نفسیات کی گنجلک گتھلیوں کو سلجھانے میں ایک حد تک تو ضرور مدد کی ہو گی۔ .
لاہور سے کچھ عرصہ بعد مصنف کے والد کا تبادلہ دوبارہ امرتسر ہو گیا انسانوں سمیت پیٹر نے بھی لاہور سے امرتسر کوچ کیا رشیدہ نے سامنے والے مکان سے اتنے برسوں بعد اکرام صاحب کی آمد پر ریڈیو کی آواز بلند کرتے ہوۓ خیرمقدم کیا کپل اور ست پال پہلے سے وہاں موجود تھے سکول کا زمانہ گزر چکا تھا مصنف کالج میں داخل ہو چکا تھا ترقی پسند تحریک اپنے عروج پر تھی مصنف کا پرولتاریوں سے متاثر ہونا اس زمانے کا عین دستور تھا.

یہ دنیا رنگ رنگیلی بابا یادوں پر کسی کی اجارہ داری ہے اور خوابوں پر کون پہرے بٹھا سکا ہے۔

اب سمجھ آئی کہ یہ اے۔حمید امرتسر کے کمپنی باغ کے پھولوں کی مہک سے تقسیم کے بعد برسوں تک یادوں کے گلشن کو کیوں معطر کیے رہے، امرتسر کی اسی کمپنی باغ میں کچھ دنوں بعد رشیدہ اور مصنف نے ایک دوسرے کی جانب کچھ قدم اور بڑھنا تھے اور اسی باغ میں جے سنگھ نے ہمارے اکرام صاحب کو وائٹ ہارس سے متعارف کروایا۔ ایف۔اے میں جو مضامین دنیاوی لحاظ سے کامیابی کی ضمانت سمجھتے ہوئے اکرام صاحب کو رکھنے پر مجبور کیا گیا تھا ان میں فیل ہونا یقینی طور پر طے تھا مگر نتیجے کے بعد اکرام صاحب اپنے والد کے قہر سے محفوظ رہے کیونکہ نتیجے کے بعد فسادات نے آزادی کی خوشی کو داغدار کرنا تھا، امی جمی کو موت اور لوٹ مار کی آندھی نے یوں جنجھوڑا کہ کئی خاندان اب تک بھی تاب نہیں لا سکے۔

وطن سے بے وطن ہونے والوں نے راستے کی مشکلات سے بچنے کے لیے پیاروں کو اپنے ہی ہاتھوں سے مارا جو بچ کر پہنچ بھی پائے ، وہ املاک کی تقسیم پر لالچ اور اقرباء پروری کے ستاروں کو بام عروج پر دیکھ کر ششدر رہ گئے، وہ نہ آزادی کو نعمت قرار دے سکتے تھے اور نہ ہی واپس جا سکتے تھے۔ بے بسی کی مجسم تصویر بنے عجب دوراہے پر کھڑے تھے مصنف کا خاندان بھی ایک قافلے کی صورت مملکت خداداد پہنچا، اکرام صاحب کے والد نے تمام عمر ایمانداری کے ساتھ ساتھ صبر اور شکر کو وظیفہ حیات بنائے رکھا وہ تقسیم کے حادثے کے دوران بھی بھلا کیا ہاتھ رنگتے، سو ادھر پہنچ کر بے سروساماں ملتان سے نئی زندگی کا آغاز کیا۔

اکرام صاحب سے اپنے کم وبیش بیس سالہ احترام، محبت اور دوستی پر مبنی تعلقات کی بنیاد پر میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں، اس عہد نامراد جس میں خط لکھنے کا رواج ہی نہیں رہا مگر آدمی اغوا ہوئے جاتے ہیں ان جیسے غیور، اصول پسند اور صلح کل مزاج رکھنے والے اشخاص اب خال خال ہی ہیں۔

ڈاکٹر تلسی داس کی بیگم نے کشمیر کی بنی جو ٹوکری اکرام صاحب کی والدہ کو کم و بیش اسی برس پہلے دی تھی وہ اکرام صاحب کے گھر کے ایک کونے میں اب بھی دھری ہے، زمانی و مکانی لحاظ سے وہ کئی داستانوں کی امین ہے جن کا ایک کردار خود مصنف ہے، وہ تنہائی کے لمحوں میں اکرام صاحب کو گواہ بنا کر کچھ بھولی بسری باتوں کا تذکرہ تو کرتی ہو گی، ہماری جہانِ گزران کے لکھنے والوں سے التماس ہے کہ وہ اس داستان کو تحریری صورت میں آگے بڑھاتے ہوئے اپنے عہد اور ذات کے حوالے سے ان کہی باتوں کو بیان کریں سیاست اور تاریخ پر تو پہلے ہی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے.۔