کل الیکشن کمیشن کی جانب سے جنوری کے آخری ہفتے میں عام انتخابات کروانے کا اعلان کر دیا گیا جس کے بعد ملکی سیاست میں نئی ہلچل مچ گئی۔ ن لیگ کے بڑوں نے جہاں لندن میں بڑی بیٹھک لگا لی، وہیں ملک بھر میں نئے اتحاد بنانے کے لیے سیاسی ملاقاتوں کا سلسلہ زور پکڑ گیا۔ پیپلز پارٹی کا لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ پورا ہوا یا نہیں، یہ تو معلوم نہیں مگر زرداری صاحب نے انتخابات سے قبل اپنی سیاسی فیلڈنگ سیٹ کرنا شروع کر دی ہے۔
کل الیکشن کمیشن کے اعلان کے چند گھنٹے بعد ہی پیپلز پارٹی کے رہنما آصف زرداری اور مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین کے مابین اہم ملاقات ہوئی جس میں الیکشن کے حوالے سے مشاورت کے ساتھ ساتھ پنجاب میں انتخابی اتحاد قائم کرنے اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے کی تجویز پر طویل گفتگو ہوئی۔ پیپلز پارٹی کی سیاسی حکمت عملی اور بیانات کو دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ زرداری صاحب کی نظریں سندھ سے زیادہ پنجاب پر جمی ہوئی ہیں۔ جہاں زرداری صاحب پنجاب کے محاذ پر سرگرم ہیں، وہیں سندھ میں بھی نئے اتحاد بنتے اور پُرانے بگڑتے نظر آ رہے ہیں کیونکہ ایم کیو ایم نے آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ ن سے اتحاد کی خواہش کا اظہار کر دیا ہے۔
دوسری جانب جی ڈی اے بھی ایم کیو ایم سمیت مخلتف سیاسی جماعتوں سے انتخابات سے قبل رابطوں میں نظر آ رہی ہے۔ جماعت اسلامی نے اعلان تو کیا ہے کہ ہم کسی سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد نہیں کریں گے مگر اس اعلان کے ساتھ ساتھ گورنر سندھ کو ملاقات کی دعوت بھی دے دی ہے۔ گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری کی امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان سے طویل اہم ملاقات ہوئی جس میں ملکی سیاست اور انتظامی معاملات پر اہم گفتگو ہوئی۔ اب دیکھنا یہ ہے انتخابات سے قبل سندھ کی سیاست میں پہلے تبدیلی آتی ہے یا پھر پنجاب کی سیاست میں۔
نواز شریف اگر 21 اکتوبر کو پاکستان واپس آ جاتے ہیں تو پیپلز پارٹی کیا پنجاب کو فتح کر پائے گی؟ ایم کیو ایم جو کبھی کسی کی اتحادی ہوتی ہے تو کبھی کسی کی، اس بار ایم کیو ایم کس کا ساتھ دے گی؟ سندھ کی سیاست کیا رخ اختیار کرے گی؟ انتخابات کی حتمی تاریخ کا اعلان تو نہیں کیا گیا لیکن مکمل بے یقینی کے ماحول میں الیکشن کمیشن کا یہ اعلان خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے۔ کیا الیکشن جنوری میں ہو سکیں گے؟ ان سوالوں کے جواب آنے والا وقت ہی دے سکتا ہے۔