Get Alerts

آ گیا اور چھا گیا!

آ گیا اور چھا گیا!
ایک سال قبل جب عمران خان وزیراعظم ہاوس سے نکلے توان کی مقبولیت زوال پزیر تھی. الیکٹیبلز کی ایک بڑی تعداد ان کی پارٹی چھوڑ چکی تھی جبکہ بہت سے بڑے بڑے نام اپنا سامان باندھے بیٹھے تھے۔ اگر مئی 2022 میں پاکستان میں جنرل الیکشن ہو جاتے تو شاید ہی عمران خان کی سیاسی جماعت 2018 والی پرفارمنس کے قریب پہنچ پاتی۔ مئی کے لانگ مارچ کے اعلان نے ملک میں فوری انتخابات کا راستہ تو بند کر دیا لیکن یہ حکومتی فیصلہ عمران خان کے حق میں بے حد مفید ثابت ہوا۔

عمران خان نے گزشتہ سال میں اپنی سیاسی پوزیشن جس قدر مستحکم کی ہے، اس میں بہت بڑا حصہ حکمران اتحاد کے فیصلوں کا بھی ہے۔ پچھلے سال مئی کے میں قومی اسمبلی کی تحلیل کے مسئلے سے لیکر زمان پارک میں عمران خان کی گرفتاری کی کوشش تک، حکمران اتحاد کے بیشتر اقدامات سے عمران خان نے براہ راست فائدہ اٹھایا۔

اپریل 2022 میں جس سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن کے امیدوار نہ ملنے کا خدشہ تھا، اسی جماعت کے ٹکٹ کا انٹرویو ایک کروڑ میں بکنے تک کے سفر میں جہاں عمران خان کے اپنے فیصلوں اور سیاسی چالوں کا کردار ہے وہیں حکمران اتحاد کی نالائقیوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ پچھلے ایک سال میں پاکستانی معیشت جس بری طرح سے برباد ہوئی اس نے عوام کو عمران خان دور کی مہنگائی اور بےروزگاری بھلا دی۔ اب مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی لاکھ عوام کو بتانے کی کوشش کرتی رہے کہ یہ تباہی عمران خان دور سے شروع ہوئی۔ مہنگائی کے طوفان کے تھپیڑے کھاتی ہوئی عوام کا بیشتر حصہ ان کی بات نہیں مانے گا۔

یہی وجہ ہے کہ حکمران اتحاد الیکشن سے بھاگنے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہے۔ سپریم کورٹ کے آرڈر کے باوجود پنجاب میں الیکشن کے لئے فنڈز جاری نہ کرنے کے بعد مسلم لیگ ن کو امید ہے کہ وہ سیاسی شہید بن سکتے ہیں۔ لیکن، یہاں بھی عمران خان ان کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ پچھلے ایک سال میں انہوں نے اپنے سپورٹرز کو یہ یقین دلا دیا ہے کہ تمام تر ادارے اور اشخاص ان کے خلاف صف آرا ہیں، اور وہ اکیلے ان کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ عمران خان نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو اس کی جڑوں تک ہلا کر رکھ دیا ہے۔ بہت سے لوگوں کی توقعات کے برعکس، اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کی طلاق کا عمران خان سے زیادہ نقصان اسٹیبلشمنٹ کو ہوا ہے۔ پچھلے دس سال میں 'ہائبرڈ وارفئیر' کا 'مقابلہ' کرنے لئے تیار کی گئی نسل آج عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ مارکہ سیاستدان کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ کو آنکھیں دکھانے کا سلسلہ عمران خان سے نہیں شروع ہوا۔ لیکن عمران خان سے بہتر اس کردار کو کوئی ادا نہیں پایا۔ آج پاکستان کی عوام کا ایک بڑا حصہ اس بات سے لاعلم ہے کہ کیسے 2011 سے لیکر 2018 تک پراجیکیٹ عمران خان پر کام کیا گیا۔ انہیں تو صرف اتنا پتہ ہے کہ 'دنیا کے مقبول ترین وزیراعظم' کو ایک سازش کے تحت ان۔کے عہدے سے ہٹایا گیا۔ یہ عمران خان کی کامیابی نہیں تو اور کیا ہے کہ انہوں نے حقائق کے برعکس ایک بیانیہ تشکیل دیا اور پھرعوام کو اس بیانیے پر قائل کر لیا۔

عمران خان کو نا پسند کرنے والے لوگ اس حقیقت سے نظر کیسے چرا سکتے ہیں کہ جھوٹا یا سچا، ان کا بنایا ہوا بیانیہ اس قدر مقبول ہو چکا ہے کہ پاکستان کی 'بیانیہ فیکٹری' بھی عمران خان کا مقابلہ نہیں کر پائی۔ نوجوان نسل کا ایک بہت بڑا حصہ جو 2000 کے بعد کی پیدائش ہیں۔انہوں نے دو دہائیوں سے پی ڈی ایم جماعتوں کی کرپشن کی جو داستانیں سن رکھیں ہیں۔ وہ کسی ایک شخصیت کے فیصلہ تبدیل کر لینے سے بھلائی نہیں جا سکتیں۔

عمران خان پچھلے ایک سال سے اقتدار سے باہر ہوتے ہوئے بھی ملکی معاملات پر اپنا اثر برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ عدلیہ سے لےکر بیوروکریسی تک ان کے سپورٹر کھلم کھلا ان کی حمایت کر رہے ہیں۔ اب صرف الیکشن کی دیر ہے۔ اگلے چھ ماہ میں اگر الیکشن ہو گئے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ عمران خان 2018 سے زیادہ اکثریت لیکر پارلیمان میں واپس آئیں گے۔

اس سب میں، جہاں سیاسی جماعتوں نے اپنا سیاسی سرمایہ ضائع کیا وہیں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کا بت بھی پاش پاش ہو گیا ہے۔ اب تو ہر طرف ہی یہ گونج ہے،'آ گیا اور چھا گیا"۔

حسن افتخار صحافی ہیں اور پورے پاکستان کے اتنخابی حلقوں کی سیاست پر ان کی گہری نظر ہے۔