بغیر کسی سیاق و سباق میں پڑے اگر یہ کہا جائے کہ اسلامی جمہوری اتحاد اور ایم کیو ایم پاکستان کی سیاست میں ایسی پیوند کاریاں تھیں کہ جن کے بلاشبہ سیاسی میدان میں دور رس نتائج مرتب ہوئے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا۔ اس حوالے سے ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار کہتے ہیں کہ پاکستان کی غلیظ سیاست کو اتنے قریب سے دیکھنے کے بعد اس سٹیج پر بھی میں یہ تسلیم نہ کروں کہ مارشل لا نے ایم کیو ایم کو نرم گوشہ دیا تو میں انصاف نہیں کروں گا۔ میں مانتا ہوں کہ جگہ دی گئی۔ لیکن سیاسی میدانوں کے سمجھدار لوگوں کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کے سندھ کارڈ کو بیلنس کرنے کے لئے بنائی گئی۔ دلچسپ یہ ہے ایک جانب اسلامی جمہوری اتحاد کے بطن سے نکلنے والی ن لیگ ہے جو اب اس کی تخلیق کی ذمہ دار فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنی جائز جگہ کے لئے سیاسی جنگ لڑ رہی ہے۔
دوسری جانب ایم کیو ایم ہے جو مسلسل اس فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رہی حتیٰ کہ متنازع کراچی آپریشن میں خوب طور پر رگڑا بھی کھایا مگر پھر جیسے ہی اشارہ ہوا، پھر سے خدمات اسی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کو پیش کر دیں۔
شاید اپنے وجود سے اب تک کوئی حکومت نہیں جو ایم کیو ایم کی مدد کے بغیر اپنا وجود قائم رکھ سکی ہو یا کم از کم ہر کسی کو قانون سازی کے لئے تو ایم کیو ایم کو رام کرنا پڑتا ہی ہے۔ اس کی یہی پوزیشن اسے ایک طرح سے اسٹیبلشمنٹ کا آلہ سیاست گردی بناتی ہیں جو کہ کسی بھی حکومت کے نٹ بولٹ کسنے یا پیچ ڈھیلے کرنے کے کام آتا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ اور ایم کیو ایم میں اس دوستی کی ابتدا مبینہ طور پر ملک کے اس وقت کے آرمی چیف اور الطاف حسین کے درمیان معروف بزنس مین کے گھر پر ملاقات کے دوران ہوئی۔ بی بی سی نے آج ایم کیو ایم حقیقی کے قائد آفاق احمد کی زبانی اس ملاقات کا احوال لکھا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایم کیو ایم بلدیاتی الیکشن بڑے بھاری مارجن سے جیت چکی تھی۔ 1989 کی بات ہے جب اسلم بیگ آرمی چیف تھے۔ انھوں نے مدعو کیا تو آفاق، الطاف حسین اور یوسف ایڈووکیٹ، یونس حبیب (مہران بینک سکینڈل والے) کے گھر گئے۔
وہاں اسلم بیگ نے الطاف حسین سے کہا بھئی، قومی دھارے کی سیاست کیجئے۔ اب آپ لسانی سیاست کو خیرباد کہہ دیجئے۔ آپ کا آگے مستقبل ہے۔
آفاق احمد کے مطابق جنرل بیگ کی اس بات پر الطاف حسین نے رسماً کہا کہ جناب، ہمارے پاس اتنے وسائل کہاں، تو اسلم بیگ نے یونس حبیب سے کہا اور یونس حبیب نے فوراً پیسے دے دیے۔
آرمی چیف تبدیل ہو گئے لیکن نئی نئی طاقت کے نشے میں سرشار ایم کیو ایم کو اپنے خالق ادارے کی طاقت سمجھنے میں غلطی ہوئی اور ایم کیو ایم نے سرخ لکیر عبور کرنا شروع کر دی۔
سیاسی طاقت کے بل پر ایم کیو ایم اُس وقت تک اتنی مضبوط ہو چکی تھی کہ شہر اور پولیس جیسے ریاستی اداروں کا کنٹرول سنبھالنے کی کوششیں بھی کی جانے لگیں اور بلدیہ، سندھ حکومت کے معاملات میں الجھنے کے ساتھ ساتھ دیگر اداروں سے بھی دانستہ یا غیردانستہ مُڈ بھیڑ کی نوبت آنے لگی۔
بی بی سی نے پاکستان میں طاقت کے سرچشموں کے قریب رہنے والی ایک شخصیت کا حوالہ دے کر لکھا ہے کہ ایک بار تو یہ بھی ہوا کہ جنرل آصف نواز کی فون کال آئی تو الطاف حسین نے خود بات کرنے کی بجائے عمران فاروق کو کہا کہ تم بات کر لو۔ انہوں نے جب جنرل آصف نواز کو بتایا کہ الطاف حسین مصروف ہیں، آپ مجھے بتائیں تو جنرل آصف نواز آگ بگولہ ہو گئے اور انہوں نے فون بند کر دیا۔
لیکن ماہرین کے مطابق آخری اور سنگین غلطی جس نے اداروں اور وفاق کو راست اقدام پر مجبور کیا، وہ ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی کے فیلڈ آپریشن سٹاف سے تعلق رکھنے والے میجر کلیم کی ایم کیو ایم کے رہنماؤں اور کارکنوں کے ہاتھوں مبینہ اغوا تھا۔ یہ 1991 کی بات ہے۔
ان کی جانب سے درج کرائی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ وہ اور ان کے دو ماتحت افسران 9 بج کر 20 منٹ پر لانڈھی میں فیکٹ فائنڈنگ کے لئے دورے پر گئے جہاں ایم کیو ایم کے مقامی رہنماؤں اور 20 کے قریب کارکنوں نے گھیر لیا۔ شناخت ظاہر کرنے کے باوجود انہیں گاڑی سے اتار کر وائٹ ہاؤس نامی عمارت میں لے جا کر کرنٹ لگایا گیا اور تشدد کیا گیا۔ اس دوران اس وقت کے ذرائع ابلاغ میں ایم کیو ایم میں جرائم پیشہ افراد کے شامل ہونے کی خبریں زینت بننے لگیں۔ ایم کیو ایم میں سے آفاق احمد اور عامر خان علیحدہ ہو گئے اور تنظیمی ڈھانچہ تحلیل کر دیا گیا۔
یہی وہ وقت تھا جب متنازع کراچی آپریشن شروع کیا گیا۔ بی بی سی کے بقول وزیر اعلیٰ سندھ نے ایم کیو ایم سربراہ کو پیشگی ہی اطلاع دے دی تھی جس کے باعث وہ لندن منتقل ہو گئے اور وہاں سے سیاست چلانے کی کوشش کی جس نے فائدے سے زیادہ ایم کیو ایم کے سیاسی وجود کو نقصان دیا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے ادوار میں ایم کیو ایم کے خلاف غیر اعلانیہ آپریشن کراچی میں جاری رہا۔ اس دوران ایم کیو ایم نے 1993 کے انتخابات کا بائیکاٹ بھی کیا اور بعد ازاں 1997 میں بھی مسلم لیگ نواز نے اسے اپنا اتحادی نہ بنایا۔
اسٹیبلشمنٹ اور ایم کیو ایم کے درمیان تعلقات میں دوبارہ سے بہتری 1999 میں جنرل پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضے کے بعد آنا شروع ہوئی۔ ابتدا میں ایم کیو ایم جنرل مشرف کی کھل کر حمایت کرنے سے گریزاں تھی۔ یہاں تک کہ اس نے 2001 کے بلدیاتی انتخابات اور پھر 2002 میں جنرل مشرف کے ریفرنڈم کا بھی بائیکاٹ کیا لیکن 2002 انتخابات کے بعد یہ سندھ اور وفاق میں ق لیگ کی اتحادی بھی بنی اور 2005 کے بلدیاتی انتخابات میں مصطفیٰ کمال کی کامیابی کے بعد جنرل مشرف نے بھی اس پر انعامات کی خوب برسات کی۔ 2008 انتخابات کے بعد ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کی اتحادی بن گئی۔ مگر اس تمام عرصے میں جہاں ان کا وفاق کی سطح پر اتحاد رہا، وہیں کراچی شہر میں دونوں جماعتوں کی ماضی کی ٹسل اسی طرح برقرار رہی جیسے یہ 90 کی دہائی میں تھی۔ ایم کیو ایم نے کئی مرتبہ اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کیا، اتنی ہی مرتبہ یہ واپس بھی آ گئی مگر کراچی شہر کی صورتحال روز بروز بگڑتی چلی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم لیگ نواز کے اقتدار میں آنے پر کراچی میں ایک بار پھر آپریشن شروع ہوا۔ ابتدا میں ایم کیو ایم نے اس کی حمایت کی لیکن پھر اس کی جانب سے شکایات آنے لگیں کہ یہ آپریشن صرف ایم کیو ایم کے خلاف کیا جا رہا ہے جب کہ اس کے مخالفین کو کھلی چھٹی ہے۔
جنرل مشرف اور پیپلز پارٹی کے دور میں ایم کیو ایم کا میڈیا پر جس طرح راج ہوا کرتا تھا، وہ بھی اس کی سیاسی قوت کے ساتھ بتدریج کم پڑتا گیا۔ بالآخر 22 اگست 2016 کا دن بھی آیا کہ جب الطاف حسین نے لندن سے ایک تقریر کے دوران ایم کیو ایم کارکنان کے مبینہ ماورائے عدالت قتل پر عوام کو ریاستی اداروں پر حملے کے لئے اکساتے ہوئے ’پاکستان مردہ باد‘ کے نعرے لگانا شروع کر دیے۔ یہ شاید وہ موقع تھا کہ جب الطاف حسین کو قومی سیاست سے علیحدہ کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا۔ آج الطاف حسین لندن میں متعدد کیسز کا سامنا کر رہے ہیں جن میں عمران فاروق قتل اور منی لانڈرنگ کے مقدمات شامل ہیں اور ایم کیو ایم کی ماضی کی طاقت کا اب صرف چار ایم این ایز کی صورت ایک کھنڈر باقی رہ گیا ہے۔