Get Alerts

جج کیلکولیٹر نہیں ہو سکتے

جج کیلکولیٹر نہیں ہو سکتے
ایک واضح نقطۂ نظر اور مستقل مزاجی کے ساتھ مختلف مواقع پر اس کا یکساں اطلاق پاکستان میں نایاب چیزوں میں سے ہے۔ مثلاً جس چیز کے لیے بڑی شد و مد سے مطالبہ کیا جا رہا ہو گا، جب وہ چیز ہونے لگے گی، تو اتنی ہی شد و مد سے اس کی مخالفت شروع ہو جائے گی۔

میرا اشارہ عمران خان کی طرف بالکل نہیں، کیونکہ کچھ لوگوں میں یہ استعداد ہی نہیں ہوتی کہ وہ ایک واضح اور متضادات سے پاک نقطۂ نظر بنا سکیں۔

میرا اشارہ ایک طرف ان دانش وروں کی طرف ہے، جو اخبارات اور ٹی وی چینلز پر اپنے ’’علم کے موتی‘‘ بکھیر رہے ہیں۔ اور دوسری طرف وہ دانش ور ہیں، جنھیں سوشل میڈیا نے بولنے، لکھنے اور تنقید کرنے کی آزادی عطا کر دی ہے۔ بلکہ ایک تیسری سمت بھی ہے، جو گفتگو اور بیانیہ علم سے تعلق رکھنے والے دانش وروں پر مشتمل ہے۔

ان تینوں قسم کے دانش وروں کے درمیان کوئی بہت زیادہ اختلاف نہیں۔ سب کا طرزِ استدلال ایک جیسا ہے، یعنی کوئی طرزِ استدلال نہیں۔ ان کا بڑا مقصد فریقِ مخالف کو نیچا دکھانا اور کج بحثی کر کے معاملے اور مسئلے کو پیچھے دھکیلنا ہے۔

یہی کچھ آئین شکن اور فوجی آمر، جینرل (ر) پرویز مشرف سے متعلق خصوصی عدالت کے فیصلے کے ساتھ ہو رہا ہے۔ بجائے اس کے کہ ایک تاریخی فیصلے کو سنگِ میل مان کر ریاست کی سمت کو درست کیا جائے، اس فیصلے کو بھی کج بحثی کی چکی میں پیسا جا رہا ہے۔

اس تحریر میں صرف ایک نکتے پر توجہ دی جائے گی۔ یعنی پیرا 66 سے متعلق کج بحثی۔ ہوا یہ ہے کہ اصل تنازعے کو علاحدہ رکھ کر پیرا 66 کو ’’تنازعے کی جڑ‘‘ بنا دیا گیا ہے۔ جبکہ یہ بات بالکل عیاں ہے کہ اگر یہ پیرا نہ ہوتا، تو کوئی اور پیرا یا کوئی اور بات یا کوئی اور قضیہ اٹھا لیا جاتا، اور اس سے یہی کام لیا جاتا، جو پیرا 66 سے لیا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ طاقت ور حلقوں کو، جو بلاشرکت غیرے غاصبانہ انداز میں آئینی اور قانونی اختیار کا استعمال کرتے رہے ہیں، یہ فیصلہ کسی صورت قبول نہیں، اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس فیصلے کی مخالفت ہونی ہی ہونی ہے۔ اور ہو رہی ہے۔

اس پیرے پر جتنے بھی اعتراضات کیے جا رہے ہیں، ان میں سے اگر کوئی اعتراض قابلِ توجہ ہے تو وہ یہ ہے: اس نوع کی سزا، آئین یا قانون میں کہاں درج ہے؟

یہ بالکل اسی قسم کا اعتراض ہے، جسے پاکستان کے تمام تعلیمی و تدریسی حلقوں میں پہلے ہی تسلیم کیا جا چکا ہے۔ امتحان دینے والے طلبہ اکثر امتحانی پرچے کے بارے میں ’’آوٹ آف سیلیبس‘‘ ہونے کا معاملہ اٹھاتے نظر آتے ہیں۔ یعنی امتحان میں جو سوالات دیے گئے ہیں، ان سے متعلق جواب نصاب میں موجود نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس اعتراض کو درست اور حقیقی مان لیا گیا ہے، اور جہاں یہ اعتراض اٹھایا جاتا ہے، وہاں امتحانی پرچہ تبدیل کروا دیا جاتا ہے۔

جسٹس وقار احمد سیٹھ کے حکم میں پیرا 66 پر یہ اعتراض اصل میں اسی نوعیت کا ہے۔ یعنی یہ کہ قانون کی کتابوں میں اس سزا کا کوئی ذکر نہیں۔ جیسا کہ تعلیمی حلقوں میں شاید ہی کسی نے یہ پوچھا ہو کہ کیا علم، محض وہی علم ہے، جو نصاب کی کتابوں میں درج ہو گیا، یا علم میں وہ علم بھی شامل ہے، جو نصاب سے باہر کتابوں میں درج ہے۔

پیرا 66 کہتا ہے کہ ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ مفرور/مجرم کو پکڑنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ قانون کے مطابق سزا دی جائے اور اگر وہ مردہ صورت میں ملے، تو اس کی لاش کو گھسیٹ کر ڈی چوک اسلام آباد پاکستان لایا جائے اور تین روز تک پھانسی پر لٹکایا جائے۔

جسٹس شاہد کریم نے اس پیرے سے اختلاف کیا ہے۔ خود جسٹس وقار نے پیرا 67 میں لکھا ہے: حقیقتاً حکم کے اس حصے اور سزا کی اس تعمیل کا تعین کہیں موجود نہیں، لیکن چونکہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ ہے اور موت کی سزا مجرم کو اشتہاری قراد دینے کے بعد اس کی عدم موجودگی میں سنائی گئی ہے، لہٰذا یہ سزا کیسے دی جائے گی، اوراس کی موت کی صورت میں، یہ سوال پیدا ہو گا کہ سزا پر عمل درآمد کیسے کیا جائے، تو اس حد تک پیرا 65 دی گئی سزا کا انداز طے کرتا ہے۔

بالعموم، ہر مقدمہ اور اس کے حقائق اور مضمرات منفرد اور یکتا ہوتے ہیں، اور ججوں کو قانون اور نظیروں کے ساتھ ساتھ اپنی دانائی اور بصیرت پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح، جب مقدمات کو فیصل کیا جاتا ہے، تو جرم اور اس کی نوعیت و شدت کو سامنے رکھتے ہوئے، ججوں کو قانون میں دی ہوئی سزا اور اس پر عمل درآمد دونوں پر نظر رکھنا پڑتی ہے۔ مراد یہ کہ قانون کا لفظی اطلاق مقصود نہیں ہوتا، بلکہ قانون کا معنوی اطلاق کیا جاتا ہے۔ یعنی اس چیز پر عمل درآمد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جو قانون کا منشا، اور قانون و انصاف کا مقصود ہوتا ہے۔

یہی وہ چیز ہے، ججوں سے جس کا تقاضا عینِ انصاف قرار دیا جاتا ہے۔ نہ کہ قانون کا میکانکی اطلاق۔ کیونکہ اگر ایسا مقصود ہو تو پھر قانون کی کتابوں کو کمپیوٹر میں فیڈ کیا جا سکتا ہے، اور فیصلہ کرنے کا کام کمپیوٹر کے سپرد کیا جا سکتا ہے۔

جو لوگ پیرا 66 پر اعتراض کر رہے ہیں، یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی فہم یہی ہے کہ ججوں کو ایک کیلکولیٹر کی طرح کام کرنا چاہیے۔ یعنی ان کے سامنے ملزم کا جو جرم رکھا گیا ہے اور جو جرم ملزم پر ثابت ہو گیا ہے، قانون میں اس کی جو سزا تجویز کی گئی ہے، وہی سزا سنا دی جائے۔ قصہ ختم۔ اس کا مطلب یہی بنتا ہے کہ پھر عدالتیں بند کر دی جائیں اور انصاف فراہم کرنے کا کام کمپیوٹر جیسی مشینوں کو سونپ دیا جائے۔

اس سلسلے میں بچوں کے قتل میں ملوث ایک شخص جاوید اقبال کے مقدمے کا ذکر بھی بہت ہو رہا ہے۔ اس مقدمے میں بھی جرم کی شدت کو سامنے رکھتے ہوئے، سزا کی شدت کو بڑھایا گیا تھا، جس کا قانون کی کتابوں میں کوئی ذکر موجود نہیں۔ تب تو کسی نے اس سزا پر اعتراض نہیں کیا تھا۔

جہاں تک قانون کے معنوی اطلاق یا قانون کی روح کا معاملہ ہے، تو اس کی تعمیل اسی صورت میں ہو سکتی ہے، جب جج اپنی دانائی اور بصیرت کو استعمال کریں گے۔ اس کا مطلب یہ قطعاً نہیں کہ وہ قانون کے لفظی بیان سے صرفِ نظر کر لیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ قانون کی منشا اور انصاف کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے اور سزا کی نوعیت کا تعین کریں گے۔ یعنی قانون کا منشا ہے قانون کے مفہوم اور اس روح کا اطلاق۔

خود جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس شاہد کریم دونوں نے اپنے فیصلے میں ’’سنگین غداری‘‘ کی دفعہ سے طویل بحث کی ہے۔ انھوں نے پاکستان کے آئین میں اس دفعہ کے مقصد اور منشا کو کھول کر بیان کیا ہے۔ اور سنگین غداری کی دفعہ 6 کے ہر لفظ اور اس کے معنی پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ انھوں نے پاکستان میں مارشل لا اور نظریۂ ضرورت کی تاریخ کو بھی بیان کیا ہے۔ فیصلے میں شامل یہ تمام پس منظر سنگین غداریک کے جرم کی شدت کو سامنے لاتا ہے۔ خود آئین اس جرم کو سب سے بڑا جرم اور اس کی سزا موت یا عمرقید قرار دیتا ہے۔

اس ضمن میں آخری بات یہ کہی جا سکتی ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں آئین کو اصلاً ’’کاغذ کا ٹکڑا‘‘ اور ایک کھلونا سمجھا گیا، وہاں اس کی سیادت، حاکمیت اور بالادستی کو قائم کرنے کی خاطر اس کا بے رحم اطلاق نہایت ضروری ہے۔ اور جیسا کہ اوپر کہا گیا، جج کیلکولیٹر کی طرح کام نہیں کرتے، نہ کر سکتے ہیں، یعنی جج بھی اسی معاشرے اور سیاسیہ کا حصہ ہیں، جہاں ریاستی اشرافیہ کے طاقت ور طبقات نے سات دہائیاں گزرنے کے باوجود آئین اور قانون کو ایک مذاق سمجھا ہوا ہے، وہاں ’’سنگین غداری‘‘ سے متعلق آئین کی دفعہ کا اطلاق اتنی ہی شدت سے کیا جانا اشد ضروری ہے، جتنی دیدہ دلیری اور چوری اور ’’سینہ زوری جیسے انداز‘‘ میں اس کا مضحکہ اڑایا گیا ہے۔

پیرا 66 اس آئین کو، جسے نہ صرف ’’کاغذ کا ایک ٹکڑا‘‘ کہا گیا، بلکہ عملاً اسے ’’کاغذ کا ایک ٹکڑا‘‘ بنا بھی دیا گیا، ایک زندہ اور جیتا جاگتا آئین بنا دیتا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ اس پیرے پر حقیقتاً عمل درآمد ہوتا ہے، یا نہیں، یا سپریم کورٹ اس کی شدت کو زائل کر دیتا ہے، لیکن اس پیرے کے الفاظ اور مفہوم میں جو قوت پوشیدہ ہے، وہ پہلے ہی برسرِ عمل آ چکی ہے۔ یہ اس ’’دیدہ دلیری‘‘ کو بہت گہرائی تک زخمی کر چکی ہے، جو اب تک آئین اور آئین کی حاکمیت کے ساتھ برتی جاتی رہی ہے۔