میں ذاتی طور پر کئی مختلف وجوہات کی بنا پر سزائے موت کے خلاف ہوں اور کئی مرتبہ اس بارے میں لکھ بھی چکا ہوں۔ لیکن میرا خلاف ہونا کوئی خاص معنی نہیں رکھتا کیونکہ قانون میں موت کی سزا موجود ہے۔ اس معاملے میں میری اور آپ کی رائے صرف اس حد تک اہمیت رکھتی ہے کہ اس موضوع پر بحث کی جا سکے۔
لیکن سچ تو یہ ہے کہ سزائے موت پہ واویلہ اس لئے مچ رہا ہے کہ یہ سزا پہلی مرتبہ ایک فوجی کو ملی جس نے 8 سال اس ملک پر حکمرانی کی۔ اگر یہی سزا کسی چور، ڈاکو، زناکار، سیاستدان یا قاتل کو ملے تب ہمارے یہاں کسی کو اعتراض نہیں ہوتا اور اگر سماجی کارکن ایسے مجرموں کے لئے آواز اٹھائیں کہ سزا کم کی جائے تو ان کو لبرل کا طعنہ دے کے دھتکار دیا جاتا ہے۔ مشرف کو دی جانے والی سزائے موت نے ہمارے نام نہاد قدامت پسند صحافی، قانون دان اور دیگر یکساں لوگوں کی منافقت سے پردہ اٹھا دیا ہے۔
پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے جنرل مشرف سے متعلق خصوصی عدالت کے تفصیلی فیصلے میں تحریر کیا کہ عہدیداروں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ مفرور مجرم کا تعاقب کرے اور اس بات کو ممکن بنائے کہ مجرم کو قانون کے مطابق سزا ملے۔ اور اگر وہ مری ہوئی حالت میں ملے تو اس کی لاش کو گھسیٹ کر ڈی چوک اسلام آباد تک لایا جائے اور تین دن تک لٹکایا جائے۔
نام نہاد قدامت پسندوں سے پردہ اس طرح اٹھ گیا کہ یہی الفاظ اگر جج صاحب نے کسی سیاستدان یا بیوروکریٹ کے لئے تحریر کیے ہوتے تو آج ارشاد بھٹی، مراد سعید اور حسن نثار جیسے رفقا جن کے افکار وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں جشن منا رہے ہوتے اور ببانگ دہل کہتے کہ ملک میں قانون کا بول بالا ہو چکا۔ تحریک انصاف شور مچا رہی ہوتی کہ ان کے آنے کے بعد اب جج بغیر خوف کے فیصلے کر رہے ہیں۔ فوج سے وضاحت آتی کہ ان کا ججوں پہ کوئی دباؤ نہیں تھا۔ ان صحافیوں کا ٹولہ اس جج کی شان میں کالم پہ کالم لکھ رہا ہوتا۔
آج ان سب کو انسانی حقوق، شریعت اور معاشی اقدار کا خیال آ گیا ہے۔ حسن نثار صاحب کئی مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ یہ نظام اتنا گندا ہو چکا ہے کہ کوئی آئے اور تیزاب سے اس نظام کو صاف کرے۔ یعنی فوج کو دعوت کہ وہ آ کے ہم گندے لوگوں کو صاف کرے۔ ایک آج کا دن ہے کہ حسن نثار جیو نیوز کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں بابر ستار سے پوچھ رہے تھے کہ آخر ضرورت کیا تھی کہ موت کی سزا دی گئی، یہ کیس تو ویسے بھی علامتی اور اتمام حجت کے مترادف تھا۔ آج ان کو اپنے تیزاب والے خیالات بھول گئے ہیں۔ فیصل واؤڈا نے کہا کہ پانچ ہزار لوگوں کو ڈی چوک پہ پھانسی دے دی جائے تو اس ملک کا نظام ہمیشہ کے لئے ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن ان پانچ ہزار لوگوں میں جنرل مشرف جیسے لوگ نہ ہوں ورنہ انسانی حقوق کی پامالی ہو جائے گی۔
کہا یہ جا رہا ہے کہ کم از کم جج کو اتنے سخت اور انتہا پسند الفاظ نہیں لکھنے چاہیے تھے۔ جج کی نظر میں غداری ایک انتہائی گھناؤنا جرم ہے اور جج کی نظر میں اگر وہ سزا پانے سے پہلے مر گیا تو یہ بہت بڑی ناانصافی ہو گی۔ اسی لئے جج نے اپنے تئیں ایسے شخص کے لئے نفرت کا اظہار کیا ہے جو غداری کرے۔ جج نے اپنی نظر میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے کہ آئندہ کوئی یہ جرم نہ کرے علامتی طور پر کہا کہ اگر وہ مر بھی جائے تب بھی اس کو عبرت کا نشان بنایا جائے۔ میں کئی پاکستانیوں کی طرح جج کے اس جملے سے متفق نہیں ہوں لیکن میرا متفق ہونا یا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا اور نہ ہی آپ کا۔ یہ جج کا اختیار ہے۔
ہم سب کو اپنی مرضی کا انصاف چاہیے۔ اداروں کو بھی وہ انصاف قبول ہے جس کے دائرے میں وہ نہ آتے ہوں۔
عجب بات یہ ہے کہ جنرل مشرف کے کیس میں دو فریق تھے۔ ایک ریاست اور دوسرے جنرل مشرف۔ عدالت نے ریاست کے حق میں فیصلہ دیا اور ملزم کو سزا دے دی۔ اور اب ریاست اسی عدالت کے خلاف کھڑی ہو گئی ہے جس نے اس کے حق میں فیصلہ دیا۔ پوری دنیا ہم پہ ہنس رہی ہو گی۔ میری تجویز یہ ہے کہ یا تو مکمل طور پر قانون کو ختم کر دیا جائے اور ہمیشہ کے لئے یہ ملک فوج کے حوالے کر دیا جائے اور یا قانون کو اپنا راستہ بنانے دیا جائے۔ کب تک آدھا تیتر آدھا بٹیر کے فارمولے پہ ریاست چلے گی؟