Get Alerts

ریاستی ادارے غیر جانبدار رہے تو آئندہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی کا حشر بہت برا ہوگا: سلیم صافی

ریاستی ادارے غیر جانبدار رہے تو آئندہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی کا حشر بہت برا ہوگا: سلیم صافی
سلیم صافی نے کہا ہے کہ اگر حالات نارمل رہے اور الیکشن کمیشن سمیت دیگر ریاستی اداروں نے غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا تو تحریک انصاف کا حشر آئندہ عام انتخابات میں بہت برا ہوگا۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات، پی ٹی آئی کی پرفارمنس اور دیگر معاملات پر اپنا تجزیہ اور تبصرہ پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مجھے ماضی کی طرح سلیکشن نما الیکشن کا خدشہ تھا۔ تاہم خراب کارکردگی کے باوجود پی ٹی آئی کو ملنے والی سیٹوں پر میں حیران ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ عناصر جنہوں 2018ء کے الیکشن اور بعد ازاں کئی ضمنی انتخابات کو یرغمال بنایا ہوا تھا، ان کے اثر سے خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات آزاد تھے۔ شاید فیصلہ کر لیا گیا تھا کہ اب کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ ہمیں ان کی مینجمنٹ کے کوئی آثار نظر نہیں آئے۔ ان قوتوں کی جانب سے مداخلت کی شکایت بھی ہمیں کسی جماعت سے نہیں ملی۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ الیکشن قطعی طور پر ہر قسم کے دبائو سے آزاد نہیں تھے کیونکہ وزیراعظم، صوبے کے وزیراعلیٰ، گورنر اور وزرا نے اس میں پورا زور لگایا تھا۔ یہ مداخلت اتنی زیادہ تھی کہ الیکشن کمیشن نے وزیراعظم سمیت دیگر کو نوٹس جاری کئے۔ اس تناظر میں یہ آئیڈیل شفاف انتخابات نہیں تھے۔ اس میں پیسوں اور سرکاری وسائل کا بھرپور استعمال کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کی مرضی کے بغیر پی ٹی آئی میں کوئی پر بھی نہیں مار سکتا۔ پہلے بھی رشتہ داریوں، پیسوں، اثروسوخ اور عمران خان تک پہنچ کی بنیاد پر ٹکٹ دیئے جاتے تھے۔

سلیم صافی کا کہنا تھا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی صوبائی تنظیم سرے سے ہے ہی نہیں۔ عمران خان صوبے کی تنظیم براہ راست سیف اللہ نیازی کے ذریعے چلاتے ہیں۔

ٹکٹوں کی بندر بانٹ کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ علی امین گنڈا پور نے ڈی آئی خان، علی محمد خان نے مردان، اسد قیصر نے صوابی جبکہ پشاور میں گورنر شاہ فرمان ودیگر وزرا نے ان کی تقسیم کی تھی۔

تحریک انصاف حکومت کی کارکردگی پر بات کرتے ہوئے سلیم صافی نے کہا کہ بلین ٹری سونامی حالیہ تاریخ کا سب سے بڑا فراڈ ثابت ہوگا لیکن میڈیا اس جانب توجہ نہیں دیتا۔ قبائلی اضلاع کی عوام میں شعور اجاگر کرنے کیلئے لگ بھگ 70 کروڑ روپے رکھے گئے تھے لیکن اس بھاری رقم کو پی ٹی آئی کے ٹرولز کیلئے وقف کر دیا گیا ہے۔ 24 ہزار ماہانہ ان لوگوں کو دیئے جاتے ہیں۔ ایک ایک بندہ چار پانچ اکائونٹ چلا رہا ہے۔ ان کا کام یہی ہے کہ دن کو رات اور رات کو دن ثابت کریں۔

اس کے علاوہ عمران خان بارہا یہ اعلانات کیا کرتے تھے لوگوں نے اپنے دو لاکھ بچے نجی سکولوں سے نکال کر سرکاری سکولوں میں داخل کرا دیئے ہیں۔ میں اس پر چیختا رہا کہ اگر کوئی مجھے ایک ہزار بھی بتا دے تو میں صحافت چھوڑ دوں گا لیکن وہ جھوٹ تواتر سے جھوٹ بولا جاتا رہا۔ میڈیا نے وہاں جا کر اس بات کی تصدیق کرنا تک گوارا نہیں کیا۔ اسی طرح صحت کارڈ کا معاملہ ہے، اس کے پیسے سرکاری ہسپتالوں کے فنڈز سے نکالے گئے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے سرکاری ہسپتالوں کی جو صورتحال بہت خراب ہو چکی ہے۔

بلدیاتی انتخابات میں جمیعت علمائے اسلام کی جیت پر ان کا کہنا تھا کہ مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ یہ جماعت اس سطح پر کم بیک کرے گی۔ مولانا فضل الرحمان کو جیت کی توقع تو دور کی بات، اس الیکشن میں دلچسپی ہی نہیں تھی۔ ان کو لگتا تھا کہ عدالت سے یہ الیکشن نہیں ہو پائیں گے۔ تاہم جب فیصلہ ہو گیا تو انہوں نے اپنے وکلا سے مشورہ کیا تھا کہ اسے کس طرح ملتوی کیا جا سکتا ہے کیونکہ انھیں خطرہ تھا کہ ماضی کی طرح قوتیں اس الیکشن میں بھی مداخل کریں گی۔ وہ ان کا انعقاد ہی نہیں چاہتے تھے۔ وہ بارہا اپنے بیانات میں کہہ چکے تھے کہ ہمیں بلدیاتی نہیں بلکہ عام الیکشن کا انعقاد چاہیے۔