برصغیر کے عظیم گلوکار محمد رفیع زندہ ہوتے تو 24 دسمبر کو اپنی 98ویں سالگرہ منا رہے ہوتے۔ یہ مضمون رفیع صاحب کو جنم دن پر خراج تحسین پیش کرنے کے لیے لکھا گیا ہے۔
گرو دت نے سٹوڈیو میں آنے کے بعد سب سے پہلے یہ دیکھا کہ محمد رفیع پہنچے ہیں کہ نہیں؟ اردگرد نگاہیں گھمانے کے بعد انہیں معلوم ہو گیا کہ ریکارڈنگ سٹوڈیو میں دور دور تک محمد رفیع کا کوئی نام و نشان نہیں۔ موسیقار روی تھے، شکیل بدایونی اور یہاں تک کہ فلم کے ہدایت کار ایم صادق بھی لیکن نہیں تھے تو رفیع صاحب، یہ بات ہی ان کا پارہ چڑھانے کے لیے کافی تھی۔ 60 کی دہائی کا دور دورہ تھا۔ ہدایت کار اور فلم ساز گرودت ' چودھویں کا چاند' بنانے کی تیاری کر رہے تھے جس میں وہ خود ہیرو کے طور پر آئے۔ یہ فلم انہوں نے 'کاغذ کے پھول' کے بعد بنانے کا ارادہ کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ' چودھویں کا چاند' کا سکرپٹ گرو دت کے پاس برسوں سے پڑا تھا اور ایک دن انہوں نے اپنی میز کی دراز سے اسے نکال کر اسسٹنٹ ایم صادق کو دیتے ہوئے کہا کہ اب وہ یہ فلم بنائیں گے۔
گرو دت نے گزشتہ فلموں کی طرح اس مووی کی موسیقی، شاعری اور گلوکاری میں بھی اعلیٰ معیار برقرار رکھنے کی ٹھانی ہوئی تھی۔ گرو دت اور موسیقار ایس ڈی برمن کے بیچ فلم 'کاغذ کے پھول' کے دوران کچھ تلخیاں پیدا ہو گئی تھیں اسی لیے ' چودھویں کا چاند' کے لیے انہوں نے موسیقار روی کا انتخاب کیا تھا جبکہ نغمے رومانی گیت لکھنے والے شکیل بدایونی ہی کے تھے۔ گرو دت کو اس فلم سے بہت زیادہ توقعات تھیں۔
گرو دت نے اسسٹنٹ سے جب رفیع صاحب کے بارے میں پوچھا تو پتا چلا کہ وہ تو آئے ہی نہیں۔ غصے میں لال ہو کر انہوں نے اپنے بھائی آتما رام کو بلا کر حکم دیا کہ جتنی جلدی ہو وہ رفیع صاحب کے گھر جائیں اور انہیں بتائیں کہ ریکارڈنگ سٹوڈیو میں سب ان کا انتظار کر رہے ہیں۔ بلکہ انہوں نے بھائی کو تاکید کی کہ وہ رفیع صاحب کو اپنے ساتھ ہی لے کر آئیں۔ گرو دت کو یہ فکر کھا رہی تھی کہ انہیں اگلے دن اس گانے کی عکس بندی کرنی ہے اور ابھی تک یہ تیار بھی نہیں ہوا۔
آتما رام بھائی گرو دت کے غصے کو جانتے تھے اسی لیے بھاگم بھاگ باندرہ میں رفیع صاحب کے گھر گئے تو اُن کی بیگم کے ذریعے معلوم ہوا کہ رفیع صاحب بمبئی کے علاقے تارڈیو کے فلم سینٹر میں کسی فلم کے گانے کی ریکارڈنگ کے لیے گئے ہیں۔ بھائی واپس آیا اور ڈرتے ڈرتے سارا ماجرہ گرو دت کے گوش گزار کر دیا جو غصے کے عالم میں ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹہلنے لگے۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں۔ اب مجبوری یہ بھی تھی کہ گرو دت یہ جانتے تھے کہ رفیع صاحب ہی اس گانے کے ساتھ انصاف کر سکتے ہیں ورنہ وہ کب کا کسی اور گلوکار کو اس گانے کے لیے طلب کر چکے ہوتے۔ کچھ سوچتے ہوئے انہوں نے بھائی سے کہا کہ وہ فلم سینٹر جائیں اور اپنے ساتھ ہی گاڑی میں رفیع صاحب کو ہر صورت میں لے کر آئیں۔ گرو دت کے بھائی جیسے تیسے فلم سینٹر پہنچے تو انہوں نے سکھ کا سانس لیا کہ رفیع صاحب وہیں تھے جو ایک گانے کی ریکارڈنگ میں مصروف تھے اور ریکارڈنگ سٹوڈیو کے شیشے سے انہوں نے گرو دت کے بھائی کو دیکھ کر ہاتھ کے اشارے سے کہا کہ وہ فارغ ہو کر آتے ہیں۔ ریکارڈنگ جب مکمل ہوئی تو رفیع صاحب نے انتہائی شرمسار لہجے میں معذرت کرتے ہوئے کہا؛ 'تاخیر اور تکلیف کے لیے شرمندہ ہوں، دراصل جس فلم کا میں گانا ریکارڈ کرا رہا تھا اس کے ہدایت کار مدراس سے خصوصی طور پر آئے تھے اور اُنہوں نے ایک اضافی گانے کی درخواست کی تھی جسے پورا کرنے کے لیے میں ادھر آگیا۔'
رفیع صاحب کو آتما رام اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے لیکن رفیع صاحب نے کہا کہ ان کے پاس گاڑی ہے وہ ان کے پیچھے پیچھے آ رہے ہیں۔ گرو دت کے سامنے پہنچ کر رفیع صاحب نے ایک بار پھر معذرت کی لیکن اس سارے مرحلے میں گرو دت نے کچھ نہ کہہ کر رفیع صاحب سے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ رفیع صاحب سمجھ گئے تھے کہ گرو دت ان کی وعدہ خلافی اور تاخیر سے آنے پر برہم ہیں۔ اسی دوران ہدایت کار ایم صادق ان تک پہنچے اور مسکراتے ہوئے بولے؛ 'لگتا ہے ان دنوں آپ کچھ زیادہ ہی مصروف ہیں۔' رفیع صاحب نے شکر ادا کیا کہ کم از کم ہدایت کار تو اُن سے خفا نہیں۔ رفیع صاحب نے ایم صادق کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ 'فی الحال اتنا تو مصروف نہیں لیکن جس فلم کے لیے نغمہ سرائی کی وہ بڑی سٹار کاسٹ کی بڑی فلم تھی۔ نام ہے فلم کا ' سسرال' اور جو گیت ریکارڈ کرایا ہے وہ واقعی بہترین نغماتی اور مدُھر ہے۔'
گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے موسیقار روی بولے کہ 'کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ تو پھر تو رفیع صاحب پہلے وہ گیت سنائیں تا کہ ہم بھی تو جان سکیں کہ کون سا ایسا گانا ہے جو آپ کو اس قدر پسند آ گیا۔' یہ ساری گفتگو ایسے وقت میں ہو رہی تھی جب گرو دت صاحب اپنے کیبن میں جا چکے تھے۔ رفیع صاحب نے حسب روایت اپنے رسیلے انداز میں گنگناتے ہوئے کہا؛ 'تری پیاری پیاری صورت کو کسی کی نظر نہ لگے۔' رفیع صاحب نے بتایا کہ دھن شنکر جے کشن کی ہے۔ ایک بار پھر رفیع صاحب نے دریافت کیا کہ 'کیوں جناب کیسا لگا آپ کو یہ گیت؟' جس پر روی اور ایم صادق نے مسکراتے ہوئے یہی باور کرایا کہ ان کا گیت اس گانے سے زیادہ خوبصورت اور بہترین ہے جس پر رفیع صاحب نے ان کے پراعتماد لہجے کو دیکھتے ہوئے جواب دیا کہ اگر آپ لوگ اس قدر اعتماد اور یقین کے ساتھ بول رہے ہیں تو یقینی طور پر یہ گیت بھی شاندار ہی ہوگا۔
اب ' چودھویں کا چاند' کے اُس گیت کی ریہرسل تینوں مل کر کرنے لگے جو اس فلم کا ٹائٹل سانگ بھی تھا جس کے بول تھے ' چودھویں کا چاند ہو، یا آفتاب ہو، جو بھی ہو تم خدا کی قسم لاجواب ہو'۔ کئی مرتبہ کی ریہرسل کے بعد یہ گانا باقاعدہ ریکارڈ ہوا تو ریکارڈنگ کیبن سے نکلتے ہوئے رفیع صاحب کا چہرہ خوشی سے جگمگا رہا تھا۔ انہوں نے لہک کر روی اور ایم صادق سے کہا کہ 'واقعی آپ لوگ درست ہی کہہ رہے تھے، یہ گانا تو میرے دل کو چھو گیا۔ کیا گیت تھا۔ کیا دھن تھی اور کیا شاعری۔' جس پر برجستہ روی نے کہا کہ 'اور کیا بہترین آپ کی گلوکاری۔' تینوں ہی اس جملے پر زور سے ہنس دیے۔ گرو دت کو جب یہ گانا سنایا گیا تو ان کا بھی سارا غصہ اڑن چھو ہو گیا۔ جو گلوکاری وہ چاہتے تھے وہ اس گانے کے ذریعے محمد رفیع نے دے دی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ رفیع صاحب کے ' چودھویں کا چاند' میں 5 گانے تھے لیکن شہرت واقعی اسی گیت کو ملی۔ وحیدہ رحمان، گرو دت اور رحمان کی وجہ سے فلم کلاسیکی رومینٹک میوزیکل ہٹ ثابت ہوئی۔
اگلے سال 1961 میں جب آٹھویں فلم فیئر ایوارڈز کا میلہ سجا تو ناصرف محمد رفیع اس گانے کے لیے بہترین گلوکار کا ایوارڈ جیت گئے بلکہ نغمہ نگار شکیل بدایونی کو بھی اسی گانے کے لیے بہترین نغمہ نگار کا ایوارڈ دیا گیا۔ اندازہ لگائیں کہ فلم سسرال والا جو پہلا گانا محمد رفیع کو پسند آیا تھا اور جس کے لیے انہوں نے گرو دت کو طویل انتظار کرایا، اس گانے 'تیری پیاری پیاری صورت کو کسی کی نظر نہ لگے' نے 1962 کے فلم فیئر ایوارڈز میں رفیع صاحب کو بہترین گلوکار کا ایوارڈ ہاتھوں میں تھما دیا۔