سندھ فقط صوفیوں، درویشوں، سنتوں، سادھوؤں اور شہیدوں کی سرزمین ہی نہیں بلکہ یہ شاعروں کی بھی دھرتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہاں ہر چوتھا یا پانچواں شخص شاعر ہے تو زیادہ مبالغہ آرائی نہیں ہو گی۔ جیسے غلام مصحفی ہمدانی نے بدایوں کے لیے کہا تھا؛
قاتل تیری گلی بھی بدایوں سے کم نہیں
جس کے قدم قدم پہ مزارِ شہید ہے
سندھی شاعری کی تاریخ ویسے تو بہت ہی قدیم ہے لیکن قاضی قاضن کو پہلا باقاعدہ تحریری سندھی شاعر مانا اور سمجھا جاتا ہے۔ قاضی قاضن مشہور صوفی میاں میر جن کا مسکن اور مدفن لاہور ہے، ان کے نانا تھے۔ قاضی قاضن پندرھویں اور سولہویں صدی (1471-1551) کے شاعر تھے جن کی وفات کے بعد ان کی شاعری کے شروع میں صرف 7 ابيات ہاتھ آئے تھے۔ لیکن بعد میں ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے اپنے طور سندھ میں اور بھارت میں معروف شاعر اور محقق و ادیب ہیرو ٹھکر نے گجرات میں گھوم گھام کر دن رات اپنی تحقیق سے ان کی شاعری دریافت کی۔ قاضی قاضن بھارتی ریاست گجرات میں بھی مشہور اور قابل تکریم مانے جاتے ہیں جہاں ان کو 'کاجی کاجن' کہا جاتا ہے۔ لیکن قاضی قاضن کی شاعری دریافت کرنے کا سہرا ہیرو ٹھکر کے سر جاتا ہے۔
قاضی قاضن مخدوم نوح، شاہ عبدالکریم بلڑی والا (شاہ عبدالطیف کے دادا) سندھی صوفی اور اساسی شاعری کے امام مانے جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ سندھی شاعری گرنتھ کی صورت میں اسماعیلیوں کے چوغانوں میں بھی ملتی ہے جس میں ملاں نورالدین کو ایسی شاعری کا بانی مانا جاتا ہے۔ ایسے ابیات کو نوری گرنتھ بھی کہا جاتا ہے۔
لیکن قدیم و جدید، صوفی یا کلاسک سندھی شاعری کی ایک سہ مورتی ہے؛ وہ ہے شاہ عبدالطیف بھٹائی، سچل سرمست اور چین رائے سامی جنہیں شاہ، سچل، سامی بھی کہتے ہیں۔
میں جو یہ سلسلہ شروع کر رہا ہوں وہ بیسویں اور اکیسویں صدی کے سندھی شاعروں کا ہے۔ جس سندھی شاعری کو ترقی پسند شاعری قرار دیا جاتا ہے۔ جس قطار میں شیخ ایاز اور نارائن شیام سے لے کر حسن درس اور صدف ایکانت جیسے سندھ اور ہند کے سندھی شاعر آتے ہیں۔ میں اس سلسلے میں ان تمام شعرا پر لکھنے کی کوشش کروں گا۔
اس سلسلے کی پہلی کڑی کشن چند عزیز بیوس ہیں جنہیں ترقی پسند سندھی شاعری کا بنیاد کار کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری میں عوام اور وہ بھی غریب عوام کی بات کی۔ جب انہوں نے اپنی شاہکار سندھی نظم 'جھوپڑی' (جھونپڑی) لکھی تھی۔ 'الا جھرے م شال غریب جی جھوپڑی'۔ الا جهري م شال غريبن جي جهوپڙي یعنی 'غریبوں کی جھونپڑی کبھی نہ گرنے پائے'۔
جھوپڑی بیسویں صدی کی جدید سندھی شاعری میں پہلی نظم تھی جو ترقی پسند شاعری کی بنیاد بتائی جاتی ہے۔
کشن چند بیوس عزیز کی ایسی شاعری سے قبل ان کے ہم عصر شاعر گل و بلبل، جام و مینا اور حسن و عشق کی شاعری کیا کرتے تھے۔ ایسی شاعری انقلابی اور ترقی پسند شاعروں نے بھی کی۔ سندھی زبان میں بھی ہوئی ہے اور بے انداز ہوئی ہے۔ یہاں اس سلسلے میں ان شاعروں کے بھی قصے چھیڑے جائیں گے جن کو ترقی پسند شاعروں اور ادیبوں نے ترقی پسند نہیں مانا، لیکن شاعر تو شاعر ہی ہے۔ یہاں یہ سلسلہ وفا کا سندھی شاعر اور سندھی شاعری سے ہے جو بیسویں اور اکسیویں صدی کے ہیں۔ تو سب سے پہلے کشن چند عزیز بیوس۔
کشن چند عزیز بیوس
کشن چند عزیز بیوس یعنی بے بس (تخلص) 1885 میں لاڑکانہ میں پیدا ہوئے۔ سولہ سال کی عمر تک وہ سندھی زبان کے پختہ نوجوان شاعر مانے جانے لگے تھے۔ وہ بہت ہی غریب خاندان سے تعلق رکھتے تھے جن کو ان کی والدہ نے پرائمری استاد بننے تک کی تعلیم دلائی۔ ان دنوں پرائمری ٹیچروں کی تعلیم و تربیت کیلئے پرائمری ٹیچرز ٹیننگ کالج ہوا کرتا تھا۔ جو آج بھی ہے۔
رام کہیں رحیم کہیں، مطلب تو بس اللہ سے ہے
دین کہیں یا دھرم کہیں منشا تو اس راہ سے ہے
سادھو بنوں یا سالک بنوں مقصد تو دل آگاہ سے ہے
لفظوں کی دلدل میں پھنس کر مفت نہ دل ازاری کر
جان ڈالے بے جان لفظ میں کچھ معنی پر دھیان بھی دھر
کشن چند عزیز بیوس رابندر ناتھ ٹھاکر (ٹیگور) سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ٹیگور کی شاعری پڑھنے اور اسے سمجھنے کیلئے انگریزی زبان سیکھی اور پھر ٹیگور کی شاعری کی کتاب ' گیتانجلی' کا سندھی زبان میں ترجمہ کیا۔ کشن چند شاید گیتانجلی کے سندھی زبان میں پہلے مترجم تھے۔
کشن چند عزیز بیوس نے بیسویں صدی شروع ہوتے ہی جدید اور ترقی پسند شاعری کی بنیاد رکھی۔ اس کے ساتھ انہوں نے خصوصی طور پر بچوں کیلئے نظمیں لکھیں جن میں سے کئی نظمیں اور ابیات سکولی بچوں کے سندھی نصاب میں بھی ایک زمانے سے شامل ہیں۔ بچوں کیلئے ان کی شاعری کا مجموعہ سندھی میں 'موجی گیت' کے نام سے 1935 میں شائع ہوا۔
کشن چند عزیز بیوس نے گرونانک کی زندگی پر شاعری میں ایک کتاب 'نانک کوتا' کے نام سے لکھی۔ وہ سٹیج ڈرامے بھی لکھا کرتے تھے جو بعد میں 'انڈلٹھ' یعنی 'قوس قزح' کے عنوان سے شائع ہوئے۔
کشن چند عزیز بیوس بیسویں صدی کی شروعاتی پانچ دہائیوں میں سندھ کے ادبی و شعری منظرنامے پر چھائے رہے۔ انہی دنوں میں ان کا ایک مجموعہ 'سامونڈی سپوں' یعنی سمندری سیپیں کے نام سے بھی شائع ہوا۔ یہ غالباً 1930 کی دہائی کی بات ہے۔ یہ زیادہ تر صوفیانہ مزاج کی شاعری ہے۔
دلبر نظارہ تیرا ہر جا نظر ہے آئے
اس میں بھی تجھ کو دیکھوں دشمن ادھر جو آئے
کشن چند بیوس کے سیاسی رجحانات کسی قدر انڈین نیشنل کانگریس کے ہم خیال تھے اور وہ گاندھی کے افکار سے کافی متاثر تھے۔ روحانی طرح پر وہ ٹیگور سے زبردست متاثر تھے کہ ٹیگور کی کتاب 'سادھنا' سمیت تمام تصانیف پڑھنے کیلئے انہوں نے انگریزی سیکھی تھی۔ کاش وہ بنگالی زبان سیکھتے جس میں ٹیگور ایک ندی کی طرح بہتا سنائی دیتا ہے۔ مجھے میرے ایک بنگالی دوست نے ٹیگور کی نظم کا کیٹس کا کیا ہوا ترجمہ انگریزی میں سنایا اور پھر خود ٹھاکر کی وہ اصل نظم بنگالی میں سنائی۔ مجھے زبان سے نابلد ہوتے ہوئے بھی لگا جیسے کوئی ندی بہہ نکلی ہے۔ بڑا فرق ہے، زمین آسمان کا۔ انگریزی تو مہا کوی ٹھاکر کو ٹیگور بنا دیتی ہے۔ خیر یہ کسی اور بادشاہی کا تذکرہ ہے۔
اپنی زندگی کی آخری دہائی میں کشن چند عزیز بیوس گوشہ نشین ہو گئے تھے اور باقی برس بچوں کیلئے شاعری کرتے رہے۔ اسی اثنا میں ملک کی تقسیم کی آندھی بھی چلی۔ کئی خواب اور کئی چمن کیا، وطن بھی اجڑے۔ کئی سندھ سے ہند نقل وطنی کر گئے۔ لیکن کشن چند عزیز بیوس سندھ میں ہی رہے اور آخر ستمبر 1947 کو اس جہان رنگ و بو لیکن فانی سے کوچ کر گئے۔
جدید اور ترقی پسند شاعری میں شیخ ایاز ہوں، نارائن شیام، ارجن حاسد، ہری دلگیر، ہوند راج دکھایل یا پروفیسر رام پنجوانی، سب کشن چند عزیز بیوس کے سرچشمے سے پھوٹتے ہیں۔ پروفیسر رام پنجوانی نے بے زمین ہو کر بھارت میں سندھیت کی بنیاد ڈالتے ہوئے وہاں سندھی زبان اور ثقافت کی ترویج کو سندھو بھون قائم کیا تھا جو آج بھی قائم ہے۔ پروفیسر رام پنجوانی کی کہانی بھی اس سلسلے میں آگے آئے گی۔