جب کمار سانو کے ساتھ آر ڈی برمن نے گیت ریکارڈ کرانے سے انکار کردیا

جب کمار سانو کے ساتھ آر ڈی برمن نے گیت ریکارڈ کرانے سے انکار کردیا
یہ اکتوبر 1993کا قصہ ہے‘ کمار سانو بمبئی کے فلم سینٹر کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے، جہاں انہیں ہدایتکار ودھو ونود چوپڑہ کی فلم ’اے لو اسٹوری 1942‘ کا گیت ریکارڈ کرانا تھا۔ موسیقار کوئی اور نہیں راہول دیو برمن یعنی پنچم دا تھے۔ کمار سانو اُس وقت تک ہر موسیقار کے لیے کسی ’ہاٹ کیک‘ کی طرح تھے، جن کا گایا ہوا ہر گیت زبان زد عام ہوتا‘ گانوں کی ریکارڈنگ کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہوتا۔ بھارت اور دیگر ممالک کے کنسرٹس میں ان کی شمولیت اسپانسرز کو بھاری منافع دے جاتی۔ مسلسل چار برس سے وہ بہترین گلوکار کا فلم فئیر ایوارڈ حاصل  کررہے تھے۔  عاشقی کے گیت ہوں یا پھر ساجن کے‘ یا پھر بازی گر کے، ہر جانب کمار سانو کا ہی چرچا تھا۔ کسی بھی فلم میں کمار سانو کی موجودگی کامیابی کی ضمانت تصور کی جاتی۔ اسی  خود اعتمادی اورمقبولیت کے سائے تلے وہ گھر سے ریکارڈنگ کے لیے نکل پڑے تھے ۔ اُس دن بھی وہ عام سے کپڑے زیب تن کرکے جس حالت میں بھی تھے‘  اسٹوڈیو کی جانب بڑھ رہے تھے ۔ جہاں آر ڈی برمن ان کا بے چینی سے انتظار کررہے تھے۔ کمار سانو ان کے ساتھ کئی دنوں سے ریہرسل کررہے تھے اور آج وہ دن آگیا تھا ‘ جب انہیں بالی وڈ کے سب سے بڑے موسیقار کے ساتھ اپنے پہلے گیت کی ریکارڈنگ کرانا تھی۔

کمار سانو نے جب پہلی بار جاوید اختر کے لکھے ہوئے گیت ’ایک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا‘ موسیقار آر ڈی برمن سے سنا تھا‘ تو ان کی چھٹی حس نے بتا دیا تھا کہ اس گانے میں کچھ ہے۔ صرف گیت کے بول ہی نہیں بلکہ پنچم دا نے موسیقی بھی ایسی ترتیب دی تھی‘ جو دلوں کے تار چھیڑ دے۔ کمار سانو کو  یقین تھا کہ یہ گیت گا کر وہ ایک بار پھر ایوارڈ کے حقدار بن سکتے ہیں۔انہی خیالات میں کھوئے کھوئے کمار سانو اپنی منزل تک پہنچ گئے تھے۔ ریکارڈنگ اسٹوڈیو کا دروازہ کھولا تو سامنے ہی پنچم دا اپنے سازندوں کے ساتھ مصروف تھے۔ ایک جانب ہدایتکار ودھو ونود چوپڑہ بیٹھے تھے جبکہ جاوید اختر ابھی پہنچے نہیں تھے۔



پنچم دا کی جیسے ہی نگاہ کمار سانو پر پڑی‘ اُن کے چہرے کا رنگ بدل چکا تھا۔ ہاتھ کے اشارے سے اپنے اسٹنٹ کو کام روکنے کا اشارہ کیا‘ دھیرے دھیرے چلتے ہوئے کمار سانو کی طرف بڑھے۔ انہیں اوپر سے نیچے تک دیکھا۔ اور پھر پلٹ کر زور دار آواز لگائی کہ آج ریکارڈنگ نہیں ہوگی۔

کمار سانو کو ایسا لگا جیسے ان کے ارمانوں کا تاج محل زمین بوس ہوگیا ہے۔ ایک وہم یہ بھی ذہن میں گردش کررہا تھا کہ ممکن ہے کہ ان کی جگہ اب یہ گانا کسی اور گلوکار کو مل گیا ہو کیونکہ یہ وہ دور تھا جب ان کے اور ادت نرائن کے درمیان گیتوں کے حصول کے لیے باقاعدہ کھینچا تانی چل رہی تھی ۔ان کے چہرے پر اب پریشانی عیاں تھی‘ ایسے میں انہوں نے بنگالی زبان میں ہی پنچم دا سے دریافت کرلیا کہ آخر وجہ کیا ہے؟ آج تو گانا ریکارڈ ہونا تھا‘ پھر یہ کام کیوں نہیں کیا جارہا؟۔ پنچم دا کا چہرہ سرخ ہورہا تھا۔ انہوں نے کمار سانو کو بے رخی سے جواب دیا ’اپنا حلیہ دیکھا ہے؟ شیو بڑھی ہوئی ہے‘ لباس عجیب ہے‘ کیا ایسے میں گانا ریکارڈ کیا جاتا ہے؟ ۔ کمار سانو نے بھی برجستہ کہا ’دادا گانا تو گلے سے گایا جائے گا ناں؟‘ پنچم دا نے شان بے نیازی سے پیکٹ اٹھاکر سگریٹ جلا کر لمبا کش لیا اور کمار سانو کی آنکھوں سے آنکھوں ملاتے ہوئے کہا ’تم نہیں سمجھے گا۔ ابھی تم جاؤ۔بولا ناں یہ گانا ریکارڈ نہیں ہوگا۔کب ہوگا یہ میرا اسٹنٹ تم کو بتا دے گا۔‘ یہ کہتے ہوئے پنچم دا  اسٹوڈیو  سے نکل گئے۔



جس خوشی اور خود اعتمادی کے ساتھ کمار سانو فلم سینٹر پہنچے تھے‘ واپس جاتے ہوئے ان کے قدم جیسے  منوں بھاری ہوگئے تھے جو اٹھ  ہی نہیں رہے تھے۔ انہیں غم اور دکھ یہ بھی تھا کہ گانا ریکارڈ نہیں ہوا، وہی وہ خیال بھی ان کے ذہن سے چپکا ہوا تھا کہ کہیں اس گیت سے اُن کی چھٹی ہی نہ ہوجائے۔ انہی خیالات کے جنگل میں بھٹکتے ہوئے وہ گھر پہنچے اور اب کمار سانو کا ہر دن اس انتظار میں گزرنے لگا کہ کب ریکارڈنگ کے لیے کال آتی ہے۔ اور پھر ایک دن آہی گئی۔ اس بار کمار سانو نے فلم سینٹر میں جانے سے پہلے بہترین لباس کا انتخاب کیا، بال اور شیو سلیقے سے بنائے۔ خوشبوؤں میں نہاتے ہوئے وہ ریکارڈنگ اسٹوڈیو پہنچے۔ منظر کم و بیش وہی تھا‘ جس سے کمار سانو کا پہلے بھی واسطہ پڑا تھا۔ لیکن اس بار پنچم دا‘ کمار سانو کو دیکھ کر جیسے چہک اٹھے‘ چہرہ گلابی ہورہا تھا اور خوشی ان کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔ دو تین ٹیک کے اندر ہی کمار سانو نے یہ گیت ریکارڈ کرالیا۔

ریکارڈنگ بوتھ سے نکلتے ہوئے گرمجوشی کے ساتھ پنچم دا نے کمار سانوکے ہاتھ پر ہاتھ مارنے کے بعد انہیں گلے لگا لیا ۔ کمار سانو کے خدشات تو تمام تر دور ہوگئے تھے لیکن ایک سوال انہیں پریشان کررہا تھا کہ اُس دن انہیں کیوں بے ترتیب لباس اور شیو کی وجہ سے گانے نہیں  دیا۔ آخر کیوں؟

اور جب اس کا اظہار انہوں نے پنچم دا سے کیا تو وہ مسکرائے اور بنگالی زبان میں کہنا شروع کیا کہ ’دیکھو کمار‘ یہ گانا جو ہے ناں اسے میں‘ جاوید اختر اور ودھو ونود چوپڑہ دو مہینے سے تیار کررہے تھے۔کئی بار دھنیں تبدیل ہوئیں اور پھر جا کر یہ خوبصورت سی دھن فائنل ہوئی‘  یہ گیت میرے لیے چیلنج کی صورت رکھتا ہے ۔میرے ذہن میں ایک خوبصورت ہیرو اور ہیروئن بیٹھے ہوئے ہیں۔ رومنٹک ماحول ہے لیکن اُس دن تم کو دیکھ کر وہ سار ا رومانی اور پیارا بھرا خاکہ میں نے ذہن میں بنایا تھا، بھک سے اڑ گیا۔  تمہاری اُس بدحالت میں یہ گیت ریکارڈ ہوتا تو میں خاک اس گانے کو دل سے ریکارڈ کرپاتا۔ ‘ پنچم دا کے ان دلائل کے بعد کمار سانو گم صم تھے ان کے  پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔ اُس دن کمار سانو کو احساس ہوا کہ پنچم دا کیسے ایک ایک گانے کے پیچھے فکر مند رہتے تھے۔



دل کی گہرائیوں سے گانے پر کمار سانو کا یہ گیت ’ایک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا‘ سپر ڈوپر ہٹ ہوا۔ جس پر کمار سانو نے مسلسل پانچویں بار فلم فئیر ایوارڈ اپنے ہاتھوں میں تھمایا۔ جبکہ جاوید اختر کو رومانی بول لکھنے پر بہترین نغمہ نگار اور کویتا کرشنا مورتی کو بہترین فی میل سنگر کا فلم فئیر ملا۔

کمار سانو نے صرف یہی گیت نہیں بلکہ اس فلم کے تین اور گیت ریکارڈ کرائے لیکن پنچم دا کی بات گرہ سے باندھ کر رکھی۔ بدقسمتی سے 15اپریل 1994کو ریلیز ہونے والی اس فلم کی نمائش سے پہلے راہول دیو برمن 4جنوری 1994کو چل بسے۔ جنہیں اسی فلم کی مدھر اور رسیلی موسیقی پر بہترین موسیقار کا فلم فئیر ایوارڈ بعد از مرگ دیا گیا۔