سینیٹ کے انتخابات سر پر ہیں اور وزیر اعظم کی مشکلات ہیں کہ کسی طرح کم نہیں ہو رہیں۔ ایک وقت تھا کہ وہ اپوزیشن چھوڑیے، حکومتی اتحادیوں کی بھی شکل دیکھنے کے روادار نہیں تھے۔ نواز شریف، شہباز شریف، آصف زرداری اور ان کے حواری تو تھے ہی چور، مریم نواز اور بلاول بچے تھے۔ مگر عمران خان تو چودھری برادران سے بھی ہاتھ ملانے کو تیار نہ تھے۔ وہی چودھری برادران جو ان کو ووٹ بھی دیے بیٹھے تھے، ان کی حکومت بھی بچائے رکھے ہوئے تھے۔ ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی احتجاج کرتے رہے کہ مجھے IT کا کچھ نہیں پتہ، اور فروغ نسیم کو وزارتِ قانون ہمارے کھاتے میں نہ دیں، ہم نے آپ سے یہ وزارت نہیں مانگی۔ لیکن ان کی ایک نہ سنی گئی۔ تنگ آ کر بیچاروں نے وزارت سے استعفا تک دیا مگر کوئی فرق نہ پڑا۔ یہی سنایا گیا کہ عمران خان بڑے اکھڑ مزاج ہیں، کسی کی نہیں سنتے، نہ اپنوں کی نہ پرایوں کی۔ ان کے کرم فرما انہیں لاکھ سمجھاتے لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوتے۔ تنگ آ کر لاڈ اٹھانے والے اپوزیشن کو خود بلاتے، معاملات طے کرتے اور ان سے خان صاحب کے کھیلنے کو چاند لے کر دے دیتے۔ کئی بار مخالفین روتے کہ ہمارے کھلونے لے کر اس کو کیوں دیتے ہیں لیکن شفیق کرم فرماؤں نے خان صاحب کو کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی۔
اور پھر معاملات یکایک تبدیل ہونے لگے۔ لندن بیٹھے نواز شریف نے توپ کی گولہ باری شروع کی، یہاں بیٹھے کچھ جادوگروں نے اپنی کاریگری دکھانا شروع کی۔ اپوزیشن کو غصہ اس بات کا تھا کہ میدان کھلا چھوڑیں، پھر کوئی جیتے، کوئی ہارے، ہم خود ذمہ دار ہوں گے۔ ہمیں مقابلہ کرنے دیا جائے۔ جب تک ڈرائنگ روم میں آدابِ درباری بجا لاتے ہوئے یہ گذارشیں ہوتی رہیں، معاملہ خان صاحب کے حق میں ہی رہا۔ مگر جب گوجرانوالہ، کوئٹہ، کراچی، ملتان اور لاہور کے چوراہوں اور میدانوں میں یہ باتیں شروع ہو گئیں تو کرم فرماؤں کو بھی اپنے کیے کا کچھ احساس ہونے لگا۔ سینیٹ انتخابات قریب آئے تو خان صاحب کو سمجھایا کہ اب ذرا اپنے معاملات اتحادیوں کے ساتھ سیٹ کریں، ہم مزید آپ کو کھلونے لے کر نہیں دے سکتے۔ اب عمران خان صاحب کی دوڑیں لگنا شروع ہوئیں تو ایک طرف وہ لاہور کو بھاگتے، دوسری طرف اسلام آباد میں کوئی سیاپا پڑ جاتا۔ رہی سہی کسر ضمنی انتخابات نے نکال دی کہ جہاں سندھ کی سیٹوں پر تو پارٹی کا مکمل صفایا ہو گیا تو پنجاب کی سیٹوں پر بھرپور سرکاری وسائل اور سپیشل برانچ کی کاوشوں سے محض ایک ڈسکہ کی سیٹ پر ہی کوئی کارنامہ کر دکھانے کے قریب پہنچ پائے تھے کہ مریم نواز کے الفاظ میں، چوری پکڑی گئی۔ اصل گیم تو نوشہرہ میں ہوئی جہاں پرویز خٹک کے نیچے صوبائی اسمبلی کی سیٹ ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ نواز کے امیدوار نے چھین لی۔ پرویز خٹک کے بھائی کو پارٹی کی حمایت نہ کرنے کی پاداش میں صوبائی کابینہ سے نکال باہر کیا گیا تو پارٹی کے اندر ایک نئی بغاوت کی سی صورتحال پیدا ہوتی دکھائی دینے لگی جس کی سرکوبی کے لئے عمران خان پیر کو پشاور پہنچے۔
مگر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ دنیا نیوز کی خبر کے مطابق پشاور میں ہوئے اجلاس میں پارٹی کے 14 اراکینِ قومی اسمبلی اور 6 اراکینِ صوبائی اسمبلی نے شرکت ہی نہیں کی۔ کچھ اطلاعات کے مطابق اصل تعداد شاید اتنی زیادہ نہیں لیکن اگر قومی اسمبلی کے 6 سے 7 اراکین بھی اس اجلاس میں شریک نہ ہوئے ہوں تو یہ ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں محض دس ووٹوں کی برتری حاصل ہے اور اس کے اپنے اراکین کی تعداد 156 ہے جب کہ باقی یہ اپنے اتحادیوں کی حمایت سے پورے کرتی ہے۔ PDM کا ماننا ہے کہ اگر پیپلز پارٹی کے اسلام آباد سے سینیٹ کی سیٹ کے لئے امیدوار سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی یہ نشست جیتنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ ثابت ہو جائے گا کہ عمران خان قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کھو چکے ہیں جس کے بعد ان کے خلاف بھرپور اعتماد کے ساتھ عدم اعتماد کی تحریک لائی جا سکتی ہے۔
عمران خان صاحب نے یہاں جو اراکین ملے ان کو یہی کہا کہ آپ یقینی بنائیں کہ آپ سب ووٹ ڈالنے ضرور جائیں۔ انہوں نے اپنے اراکین کو یہ بھی باور کروایا کہ کسی دوسری جماعت کو پیسوں کے لئے ووٹ دینے والے کا پتہ تو چل ہی جاتا ہے، خواہ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کروائے جائیں یا خفیہ۔ غرضیکہ انہیں اس وقت اپنی پارٹی کے اندر سے کچھ افراد کا دوسری طرف جا کر مل جانے کا شدید خطرہ لاحق ہے اور وہ اسے اپنے خلاف عدم اعتماد کی کارروائی کے آغاز کے طور پر ہی دیکھ رہے ہیں۔ ان کی ساری جماعت اور کابینہ کو انہوں نے اس وقت بھرپور انداز میں سینیٹ میں اپنی فتح کو یقینی بنانے پر لگایا ہوا ہے۔
کچھ سینیئر تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ڈسکہ میں انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے اور بعد میں مبینہ طور پر سپیشل برانچ کے ذریعے الیکشن میں دھاندلی کرنے کی بھونڈی کوشش بھی دراصل کسی نہ کسی طریقے سے اپنا ایک مزید MNA بنوانے کے جنون کا ہی نتیجہ تھا جو کہ حکمران جماعت کو اس وقت بہت بھاری پڑ رہا ہے۔
اس سیٹ پر پی ٹی آئی اب 20 پولنگ سٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کروانے کے لئے تیار ہے۔ پیر کی شام عمران خان نے ٹوئٹر پر لکھا کہ میں نےہمیشہ آزادانہ و شفاف انتخابات کیلئے جدوجہدکی ہے۔اگرچہ الیکشن کمیشن کی جانب سےنتائج کےاعلان سےقبل اسکی کوئی قانونی حاجت نہیں مگر پھر بھی میں تحریک انصاف کےامیدوارسےگزارش کروں گا کہ وہ NA-75 ڈسکہ کےان 20 پولنگ اسٹیشنز جن پرحزب اختلاف واویلا کررہی ہے، میں دوبارہ پولنگ کا کہیں۔ ایسا اس لئے کہ ہم وہی شفافیت چاہتے ہیں جس کے حصول کیلئے ہم سینٹ انتخابات میں "اوپن بیلٹ" کا تقاضا کررہے ہیں۔ ہم ہمیشہ آزادانہ اور شفاف انتخابی عمل کی تقویت کیلئےکوشاں رہیں گے مگر بدقسمتی سےدیگرجماعتوں میں اس حوالےسے سنجیدگی کا فقدان ہے۔ 2013 کے انتخابات کے بعد جب ہم نے 4 حلقے کھلوانا چاہے تو اس کیلئے ہمیں 2 برس کی طویل اور صبرآزما جدوجہد سے گزرنا پڑا۔
جواب میں مریم نواز نے کہا کہ زیادہ سیانے بننے کی ضرورت نہیں۔ایک تو پوری ریاست کی طاقت شیر کے خوف سے ایک ضمنی الیکشن میں دھاندلی کرنے کے لیے جھونک دیتے ہو اور پھر بھی شکست کھا گئے تو الیکشن کمشن کا عملہ ہی اغوا کر لیا؟ یہ مطالبہ بھی تم اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے کر رہے ہو مگر تمھارا پردہ اٹھ چکا ووٹ چور۔۔۔۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ اب یہ انتخابات ہوں گے بھی تو 3 مارچ کے سینیٹ انتخابات کے بعد ہی ہوں گے۔ اپنا ایک MNA بڑھا نہ بھی سکے ہوں، خان صاحب نے کم از کم اپوزیشن کا ایک MNA کم ضرور کر دیا ہے۔ مگر کیا یہ کافی ہوگا؟ جنوبی پنجاب سے سنا ہے گیلانی صاحب تیزی سے اپنے رابطے بڑھا رہے ہیں۔ سندھ تحریکِ انصاف کا حال پہلے ہی پتلا ہے۔ اگلے انتخابات میں ان سب فصلی بٹیروں کو نئے پیڑوں کی تلاش ہوگی۔ اس کے لئے پیش بندی ابھی سے کرنا ہوگی۔ اور اس کام کی خاطر سینیٹ الیکشن سے بہتر کوئی موقع نہیں ہو سکتا۔