ڈی این اے کے گہرے راز جاننا ایک طاقتور ہتھیار ہو سکتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک کے رہنما کورونا ٹیسٹ کی آڑ میں اپنا ڈی این اے روس کے حوالے نہیں کرنا چاہتے۔
جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے میں شائع خبر کے مطابق حال ہی میں روس کا دورہ کرنے والے عالمی رہنمائوں فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں اور جرمن چانسلر اولاف شولس نے روس کو کورونا کا پی سی آر ٹیسٹ دینے سے انکار کر دیا تھا۔
روس کی جانب سے یہ شرط رکھی گئی تھی کہ صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات سے قبل ان مغربی رہنماؤں کا کورونا ٹیسٹ خود روسی طبی حکام کریں گے۔
تاہم ماکروں اور شولس نے روسی حکام کو اپنا کورونا ٹیسٹ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس انکار کے بعد ان قیاس آرائیوں کو تقویت ملی کہ مغربی رہنما نہیں چاہتے کہ ان کا ڈی این اے روس کے ہاتھ لگے۔
عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی جاسوسی اور نیشنل سکیورٹی کے دور میں عالمی طاقتیں نئے محاذوں میں طاقتور ہونے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ انٹیلی جنس ماہرین کو خدشہ ہے کہ جینیاتی سائنس اس میں اضافہ ہو سکتی ہے۔
کیا روس ڈی این اے کو دیگر مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے؟
اس حوالے سے کسی بھی یورپی رہنما کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ قیاس آرائیوں کا سلسلہ ختم ہو گیا ہو۔ فرانسیسی حکام نے ان خیالات کو مسترد کیا ہے کہ روسی حکام خفیہ طریقے سے صدر ماکروں کا ڈی این اے حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ایک فرانسیسی عہدیدار کا کہنا تھا کہ پوٹن کے قریب جانے کے لیے روسی شرائط 'ناقابل قبول اور ایجنڈے سے مطابقت‘ نہیں رکھتی تھیں۔
یہی وجہ ہے کہ جرمن چانسلر اور فرانسیسی صدر کی پوٹن سے ملاقات کے وقت درمیان میں ایک طویل ماربل میز رکھی گئی تھی اور اس کے بعد سوشل میڈیا پر مختلف میمز کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جرمن حکام کا بھی یہی کہنا ہے کہ وہ اپنے طریقہ کار کو نہیں بدلنا چاہتے تھے۔ ہمارا اپنے پی سی آر ٹیسٹوں پر یقین ہے اور اگر کسی کو شک ہے تو وہ ہمارے کیے گئے ٹیسٹوں کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔
دوسری جانب روس کا کہنا ہے کہ اگر کوئی ٹیسٹ قابل اعتماد ہے تو وہ صرف ان کا اپنا ہی ہے۔ تاہم جرمن چانسلر نے فیصلہ کیا کہ وہ روسی ٹیسٹ کے لیے دستیاب نہیں ہیں۔
ابھی تک یہ بھی واضح نہیں ہے کہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان کا روسی طبی ماہرین کورونا ٹیسٹ کریں گے یا نہیں۔ لیکن ایک چیز واضح ہے کہ اگر عمران خان روسی صدر سے ہاتھ ملانا چاہتے ہیں تو انہیں روسی حکام سے ہی پی سی آر ٹیسٹ کروانا ہو گا۔ وزیراعظم عمران خان روسی صدر کے کتنے قریب تھے، اس کا اندازہ جاری ہونے والی تصاویر سے ہو جائے گا۔
ڈی این اے سے کیا حاصل کیا جا سکتا ہے؟
ڈی این اے جسم کے ہر خلیے کے اندر ہوتا ہے اور اسے متعدد طریقوں سے نکالا جا سکتا ہے اور ان میں کورونا ٹیسٹ بھی شامل ہے۔ اس طرح کئی طرح کا جینیاتی مواد حاصل ہوتا ہے اور اس میں ایک وائرس کا آر این اے بھی شامل ہے۔ یونیورسٹی آف مینیسوٹا جینومکس سینٹر کے کینی بیک مین کہتے ہیں، ''ایسے نمونوں میں کئی ٹن انسانی ڈی این اے ہوتا ہے۔ ایسے نمونے سے آپ ڈی این اے نکالیں، اس پر آپ ہر وہ تجربہ کر سکتے ہیں، جو آپ کسی شخص پر کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
آپ کے ڈی این اے میں وہ ہدایات ہوتی ہیں، جو آپ کو زندہ رہنے اور بڑھنے کے لیے درکار ہیں۔ ہر انسان کا ڈی این اے منفرد ہوتا ہے۔ آپ ڈی این اے سے جان سکتے ہیں کہ آپ کے آباؤ اجداد کا تعلق کس علاقے سے ہے اور یہ کہ آپ میں کون کون سی جینیاتی بیماریاں موجود ہیں یا آپ کی طبی حالت کیسی ہے۔ فرانزک سائنس میں آپ مجرموں کو پکڑنے کے لیے اس کا استعمال کر سکتے ہیں۔
ڈی این اے کو عالمی رہنماؤں کے خلاف کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے؟
جینیات کے ماہر اور فلوریڈا میں جیریاٹرک آنکولوجی کنسورشیم میں صحت سے متعلق شعبہ ادویات سے منسلک ہاورڈ میکلوڈ کہتے ہیں، ''آپ بیماری کے خطرے کی نشاندہی کرنے کے لیے ڈی این اے کا استعمال کر سکتے ہیں، یا اس لیے کہ (کسی عالمی رہنما) کو کونسی بیماری کا خطرہ ہو سکتا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''آپ ایسے عناصر سے متعلق معلومات تلاش کر سکتے ہیں، جن سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔‘‘
تاہم یونیورسٹی آف مینیسوٹا جینومکس سینٹر کے کینی بیک مین کہتے ہیں کہ یہ ابھی ''بہت دور کی بات ہے کہ ڈی این اے کے ڈیٹا سے کسی کو سیاسی سطح پر نقصان پہنچایا جائے۔‘‘
جارج ایناس ایک حیاتیاتی ماہر ہیں اور وہ جینیاتی رازداری کی اہمیت کے حوالے سے کافی زیادہ لکھ چکے ہیں۔ ان کے مطابق وہ ایک چیز واضح کرنا چاہتے ہیں، '' ڈی این اے کوئی میجک نہیں ہے۔ اس سے آپ کو کچھ معلومات مل جاتی ہیں لیکن یہ آپ کو یہ نہیں بتائے گا کہ آپ کسی کو کیسے قتل کر سکتے ہیں؟‘‘
دوسری جانب ماہرین کے مطابق ڈی این سے حاصل ہونے والی معلومات کو استعمال کرتے ہوئے کسی کو بلیک میل کیا جا سکتا ہے۔ کچھ معلومات ایسی ہوتی ہیں، جو کسی شخص کے لیے انتہائی باعث شرمندگی بھی ہو سکتی ہیں۔
کیا امریکا بھی ایسے ہی ٹیسٹ کی شرط رکھتا ہے؟
امریکی صدر سے ملاقات سے پہلے بھی کورونا ٹیسٹ کروانا لازمی ہے۔ لیکن وائٹ ہاؤس میں کورونا ٹیسٹ کو ایک آپشن کے طور پر رکھا گیا ہے۔ عمومی طور پر دیگر ملکوں کے لیڈر اپنے کورونا ٹیسٹ کا خود ہی انتظام کرتے ہیں اور وائٹ ہاؤس کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
لیکن امریکا پر بھی ماضی میں ایسے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں کہ وہ غیرملکی لیڈروں کا ڈی این اے جمع کرنے میں ملوث رہا ہے۔ اوباما دور کی وکی لیکس میں انکشاف ہوا تھا کہ مخصوص افریقی ممالک میں امریکی سفارت کاروں کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ ابھرتے ہوئے لیڈروں، مذہبی اور کاروباری رہنماؤں کے انگلیوں کے نشانات، چہرے کی تصاویر، ڈی این اے اور ایرس اسکین حاصل کریں۔
کیا عالمی لیڈروں کو واقعی پریشان ہونے کی ضرورت ہے؟
ماہرین اس پر اتفاق کرتے ہیں کہ ڈی این اے سے کوئی اسکینڈل تو پیدا کیا جا سکتا ہے لیکن کوئی صدارتی کلون نہیں بنایا جا سکتا۔ لیکن آپ یہ نہیں جان سکتے کہ آخر کار آپ کا ڈی این اے کس کے ہاتھ آئے گا؟ چند سال پہلے خود کو ارنسٹ پروجیکٹ کہنے والے ایک گمنام گروپ نے ڈیووس سربراہی اجلاس میں شرکت کرنے والے متعدد عالمی رہنماؤں کا ڈی این اے حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
اس گروپ نے کہا تھا کہ وہ یہ نمونے نیلامی کے لیے پیش کریں گے لیکن پھر قانونی کارروائی کے خدشات کے پیش نظر اسے موخر کر دیا گیا اور پھر یہ نیلامی کبھی بھی نہیں ہوئی۔ اس گروپ سے بھی ویب سائٹ کے ذریعے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو
ٹیگز: coronavirus, DNA, Imran Khan, Putin, Russia, Science, Ukraine, پاکستان, جاسوسی, جنیاتی سائنس, ڈی این اے, روس, نیشنل سیکیورٹی, وزیراعظم عمران خان, ولادیمیر پیوٹن