اپوزیشن کو اب پیسے دے کر ووٹ لینے کی ضرورت نہیں، ہارس ٹریڈنگ کے سر پر تحریک عدم اعتماد نہیں ہو سکتی

اپوزیشن کو اب پیسے دے کر ووٹ لینے کی ضرورت نہیں، ہارس ٹریڈنگ کے سر پر تحریک عدم اعتماد نہیں ہو سکتی
سینئر صحافی اور تجزیہ کار افتخار احمد نے کہا ہے کہ اپوزیشن کو اب پیسے دے کر ووٹ لینے کی ضرورت نہیں، اگلے الیکشن کیلئے سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو سکتی ہے۔ ہارس ٹریڈنگ کے سر پر تحریک عدم اعتماد نہیں ہو سکتی۔

نیا دور ٹی وی کے ''پروگرام خبر'' سے آگے میں گفتگو کرتے ہوئے افتخار احمد کا کہنا تھا کہ نواز شریف سمجھتے تھے کہ اگر وزیراعظم عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹا دیا گیا تو حالات اقتصادی طور پر اور بگڑیں گے کیونکہ ملکی لیڈرشپ میں اس صورتحال سے نکلنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کا ماننا تھا کہ الیکشن اپنے وقت پر ہوں تاکہ تیسری قوت کا احسان ہی نہیں لینا پڑے۔ پھر جو لوگ فیصلہ کرینگے وہ قابل قبول ہوگا۔ لیکن اپوزیشن میں بیٹھے لوگ اس مدت تک جانا ہی نہیں چاہتے۔ اس لئے اب تحریک عدم اعتماد کو لانے کا فیصلہ ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اگر نیا وزیراعظم آ گیا تو اس کے بعد ملک کی صورتحال کیا ہوگی؟ کیا آئی ایم ایف کیساتھ معاہدہ ختم ہو جائے گا؟ لوگوں کو روزگار ملے گا؟ یا مہنگائی ختم ہو جائے گی۔

افتخار احمد نے کہا کہ ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پی ٹی آئی نے الیکشن کی تیاریاں کر رکھی ہیں۔ بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیدیا گیا ہے جبکہ پارلیمنٹ کے ذریعے الیکشن میں الیکٹرانک ووٹنگ کیلئے ترامیم بھی کرا لی گئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے ایک ایک انچ آگے بڑھتے ہوئے کام شروع کیا اور اب پیکا آرڈیننس میں ترمیم بھی لے آئے ہیں تاکہ روزانہ رات کو بیٹھ کر باتیں کرنے والوں کی زبان بندی کرائی جا سکے۔ یہ بات مجھ جیسے جاہلوں کو پتا ہے تو کیا ان لوگوں کو پتا نہیں جو صبح سے میٹنگز کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان کو نکالنے کا مقصد کیا ہے؟

انہوں نے کہا کہ حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد جب تک باقاعدہ طور پر سپیکر قومی اسمبلی کے حوالے نہیں کر دی جاتی، مجھے اس کا یقین نہیں آئے گا۔ اس کے بعد ووٹنگ اور اس کی گنتی کا دورانیہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ قومی اسمبلی میں 266 نشستیں ہیں جن پر براہ راست الیکشن ہوتے ہیں، ان میں سے 60 سیٹیں خواتین کیلئے مخصوص ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کہا جا رہا ہے کہ 186 اراکین اسمبلی تحریک عدم اعتماد کی حمایت میں جا چکے ہیں۔ تو اس حساب سے یہ 326 میں سے ہونگے، صاف ظاہر ہے کہ ان میں خواتین بھی شامل ہونگی۔ باقی جو 140 بچے ہیں، لوگ ان کو اتنا کمزور سمجھتے ہیں کہ وہ شہباز شریف کو اپنا وزیراعظم تسلیم کر لیں گے۔

پروگرام کے دوران گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئین کے تحت اگر وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو نیا وزیراعظم بننے تک عمران خان ہی پرائم منسٹر رہیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد اس کی نااہلی، بیڈ گورننس اور ان تمام وعدوں سے مکر جانے کی بنیاد پر لائی جا رہی ہے، جو اس نے قوم کیساتھ کئے تھے۔ کہا جا رہا ہے کہ نیا وزیراعظم قوانین میں ردوبدل کرے گا۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا 140 ممبران انھیں نئی قانون سازی کی اجازت دیں گے؟