ایف بی آر 1 کروڑ غریبوں سے لیا گیا ناجائز ٹیکس انہیں واپس کرے

 پچھلے 10 سالوں سے ٹیکس کے قابل آمدن نہ رکھنے والے لاکھوں افراد کی رقم کی واپسی ان کی مدد کرے گی جو تاریخی مہنگائی کے دور میں معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔ یہ ان کا پیسہ ہے اور انہیں خیرات کے طور پر نہیں بلکہ حق کے طور پر واپس کیا جانا چاہیے۔

ایف بی آر 1 کروڑ غریبوں سے لیا گیا ناجائز ٹیکس انہیں واپس کرے

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) کی ویب سائٹ پر دستیاب تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 31 جنوری 2024 تک جاری کردہ سمز کی کل تعداد 190 ملین (79.11 فیصد موبائل ٹیلی ڈینسٹی) تھی۔ 129 ملین براڈ بینڈ موبائل صارفین تھے (53.20 فیصد موبائل براڈ بینڈ رسائی)، 3 ملین بنیادی ٹیلی فونی صارفین (1.07 فیصد فکسڈ ٹیلی ڈینسٹی) اور 132 ملین براڈ بینڈ صارفین (54.58 فیصد براڈ بینڈ رسائی)۔

'سِم' (سبسکرائبر آئیڈینٹٹی ماڈیول)، ایک سمارٹ کارڈ ہے جو ڈیجیٹل فونز میں جی ایس ایم (گلوبل سسٹم فار موبائل کمیونیکیشنز) حاصل کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ پاکستان میں یہ صرف بائیو میٹرک تصدیق اور کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ میں موجود ڈیٹا کی تصدیق کے بعد جاری کی جاتی ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2015 میں پی ٹی اے کو اجازت دی کہ وہ سیلولر کمپنیوں کو صرف تین ڈیٹا والی سمز جاری کرنے کی اجازت دے، جو خاص طور پر انٹرنیٹ براؤزنگ کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ وائس کال کرنے والوں کے لیے پہلے سے موجود پانچ سم کی حد فی فرد ہے۔

اس فیصلے سے پہلے پی ٹی اے کے قوانین کے تحت، لوگوں کو ایک شناختی کارڈ پر صرف پانچ سمز رکھنے کی اجازت تھی۔ سپریم کورٹ نے پی ٹی اے کو مزید ہدایت کی کہ 'تین ماہ میں اس حکم نامے پر نظرثانی کی جائے اور اگر اتھارٹی کو کسی فرد کو اجازت دی جانے والی صرف ڈیٹا سمز کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہو، تو وہ اس سے مزید مداخلت کیے بغیر خود ہی ایسا کر سکتا ہے'۔

بہت سے لوگوں کے پاس ایک سے زیادہ سمز ہیں۔ فی شناختی کارڈ موبائل صارفین کی اصل تعداد 130 ملین سے کم نہیں ہے۔ بہت سے کاروباری ادارے نا صرف ملازمین کے نام جاری کردہ سمیں حاصل کرتے ہیں بلکہ ان کے بل بھی ادا کرتے ہیں۔ 130 ملین منفرد موبائل صارفین (بہت سے افراد کے پاس ایک سے زیادہ سمز ہیں) 15 جنوری 2022 سے 15 فیصد ایڈوانس/ایڈجسٹ ایبل انکم ٹیکس ادا کر رہے ہیں جو فنانس (ضمنی) ایکٹ 2022 کے ذریعے نافذ کیا گیا تھا۔

130 ملین منفرد موبائل صارفین میں سے 30 ملین، قدامت پسند اندازے کے مطابق، قابل ٹیکس آمدنی رکھنے والے انکم ٹیکس گوشوارے فائل کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ تاہم 19 فروری 2024 کو ایکٹو ٹیکس دہندگان کی فہرست (ATL) کے مطابق موجودہ انفرادی انکم ٹیکس ریٹرن فائلرز کی تعداد 3,968,165 تھی۔

اے ٹی ایل ہر پیر کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر) کی ویب سائٹ پر اپ ڈیٹ ہوتی ہے۔ ان 'فائلرز' میں سے 60 فیصد سے زیادہ نے یا تو قابل ٹیکس آمدنی سے کم آمدن ظاہر کی یا پھر نقصان دکھائے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

جیسا کہ دستیاب اعداد و شمار سے واضح ہے، انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والوں اور اصل میں قابل ٹیکس آمدن کمانے والے افراد کا موجودہ فرق 26 ملین افراد سے کم نہیں ہے۔

انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 236 کے تحت، سب موبائل صارفین کو ایڈوانس اور ایڈجسٹ ایبل 15 فیصد انکم ٹیکس ادا کرنا ہے، قطع نظر اس کے کہ وہ قابل ٹیکس آمدنی حاصل کر رہے ہیں یا نہیں۔ سیکشن 236 میں فراہم کردہ استثنا درج ذیل ہے:

'اس سیکشن کے تحت ایڈوانس ٹیکس حکومت، کسی غیر ملکی سفارت کار، پاکستان میں سفارتی مشن، یا ایسے شخص سے وصول نہیں کیا جائے گا جو کمشنر سے یہ سرٹیفکیٹ پیش کرے کہ ٹیکس سال کے دوران اس کی آمدنی ٹیکس سے مستثنیٰ ہے'۔

یہ دلچسپ بات ہے کہ بہت سے سرکاری ملازمین ایڈوانس ٹیکس کی ادائیگی سے استثنیٰ کے ساتھ گھر بیٹھے سرکاری فون کنکشن رکھنے کے حق دار ہیں۔ ان کے سرکاری فونز کی کڑی نگرانی کی جانی چاہیے تا کہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ وہ سرکاری اور غیر سرکاری مقاصد کے لیے کس کو کال کرتے ہیں، کیونکہ بل ٹیکس دہندگان کے پیسے سے ادا کیے جاتے ہیں اور ایف بی آر کو کوئی ایڈوانس ٹیکس نہیں ملتا!

ریونیو ڈویژن کی طرف سے جاری کردہ تازہ ترین Year Book 2022-23 میں، مالی سال 2022-23 کے لیے آرڈیننس کے سیکشن 236 کے تحت ماخذ پر جمع کردہ انکم ٹیکس 87.283 بلین روپے تھا۔ اگر ہم اس نمبر سے حساب لگائیں تو تقریباً ریونیو، جس پر چار سیلولر کمپنیوں نے ایف بی آر کے لیے ٹیکس جمع کیا، 581.88 بلین روپے بنتا ہے۔ پی ٹی اے کی ویب سائٹ پر ٹیلی کام سیکٹر کی مالی سال 2021-22 کے لیے کل آمدنی 325.2 بلین روپے ظاہر کی گئی ہے۔ ٹیکس کلیکشن اور ٹیلی کام کے ذریعہ ہر سال کمائے جانے والے محصولات کے درمیان فرق کمشنر آف ان لینڈ ریونیو (CIR) سے حاصل کردہ استثنیٰ سرٹیفکیٹ اور آرڈیننس کے سیکشن 236(4) کے تحت مستثنیٰ زمروں کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔

ود ہولڈنگ ٹیکس کے صرف ایک ہیڈ کے تحت ایڈوانس انکم ٹیکس ادا کرنے والے 130 ملین میں سے کم از کم 100 ملین افراد (زیادہ تر طالب علم) ٹیکس کے قابل یا کچھ بھی آمدن نہیں رکھتے۔ ان سے ایڈوانس انکم ٹیکس لینا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے خلاف ہے۔

مقننہ کو پارٹی خطوط سے بالاتر ہو کر یہ سمجھنا چاہیے کہ ود ہولڈنگ ٹیکس دہندگان کے اس گروپ میں غریب سے غریب لوگ بھی شامل ہیں جو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے کیش ہینڈ آؤٹ کے بھی حق دار ہیں۔ صرف 87 ارب روپے جمع کرنے کی خاطر اس ملک کے عوام کے ساتھ بڑی ناانصافی ہو رہی ہے۔ ایف بی آر کو صرف ان لوگوں کا پیچھا کرنا چاہیے جن کی آمدنی قابل ٹیکس ہے لیکن وہ ٹیکس گوشوارے فائل نہیں کر رہے۔ موبائل اخراجات کے ساتھ ایڈوانس انکم ٹیکسیشن کسی بھی ٹیکس پالیسی میں سب سے بری چیز ہو سکتی ہے جس کے بارے میں مہذب ممالک میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔

ٹیکس کے قابل آمدنی والے ریٹرن فائل نہ کرنے والوں کا پتہ صرف چار سیلولر کمپنیوں کے پاس دستیاب ڈیٹا سے لگایا جا سکتا ہے۔ کمشنرز ان لینڈ ریونیو سروس (IRS) آرڈیننس کے سیکشن 176 کے تحت اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے سیلولر کمپنیوں سے ان لوگوں کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں جو 60,000 روپے سالانہ سے زیادہ کی رقم بطور بل ادا کر رہے ہیں۔ اس بات کا تعین کرنے کے لیے کہ اس زمرے میں کتنے لوگ ریٹرن فائل نہیں کر رہے اور ان کے اس اور دیگر اخراجات کو پورا کرنے کا ذریعہ کیا ہے، بشمول وہ افراد جو مہنگے ہینڈ سیٹ کے مالک ہیں اور رومنگ سروس استعمال کرتے ہوئے بیرون ملک سفر کرتے ہیں، لیکن نان فائلرز ہیں۔

چار ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کو 130 ملین افراد سے ایڈوانس انکم ٹیکس وصول کرنے اور اسے سرکاری خزانے میں جمع کروانے کا کہنا سراسر بلا جواز ہے۔ یہ منی بل کے معاملے میں آئین کے آرٹیکل 73(1) کے تحت قومی اسمبلی کی طرف سے اور سینیٹ کی جانب سے سفارشات بھیجنے کی حد تک خراب ٹیکس پالیسی اور قانون سازی کا ایک کلاسک کیس ہے۔ یہ آئی آر ایس حکام کو 'آسان وصولی' جیسے 'آسان آمدن' کا عادی ہو کر اپنے فرائض سے دستبردار ہونے کا موقع دے رہا ہے۔

پاکستان میں انتہائی امیر لوگ ٹیکس کی ذمہ داریوں سے گریز کر رہے ہیں، جبکہ لاکھوں لوگ جن کی کوئی آمدنی نہیں ہے یا جن کی قابل ٹیکس حد سے کم آمدنی ہے وہ آئین کے آرٹیکل 4(c) کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے ایڈوانس ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ ایف بی آر انہیں معمولی رقم کی واپسی حاصل کرنے کے لیے ٹیکس ایڈوائزر کو ریٹرن اور ویلتھ سٹیٹمنٹ فائل کرنے کے لیے فیس ادا کرنے کے لیے مجبور نہیں کر سکتا۔

ایف بی آر کا فرض ہے کہ وہ ان تمام لوگوں کو نوٹس جاری کرے جو قابل ٹیکس آمدنی تو رکھتے ہیں مگر پھر بھی انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کرواتے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ نئی حکومت باگ ڈور سنبھالتے ہی مناسب ایکشن لے اور ایف بی آر کو حکم دے کہ وہ 100 ملین افراد سے جمع شدہ 15 فیصد ریفنڈز ادا کرے جن کی آمدنی پر ٹیکس عائد نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ ہی ایف بی آر کو 30 ملین انفرادی انکم ٹیکس دہندگان کی ٹیکس بنیاد کو یقینی بنانا ہو گا، جس میں سے ابھی 40 لاکھ سے کچھ کم افراد ہی انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروا رہے ہیں۔ یہ ایف بی آر کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

 پچھلے 10 سالوں سے ٹیکس کے قابل آمدن نہ رکھنے والے لاکھوں افراد کی رقم کی واپسی ان کی مدد کرے گی جو تاریخی مہنگائی کے دور میں معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔ یہ ان کا پیسہ ہے اور انہیں خیرات کے طور پر نہیں بلکہ حق کے طور پر واپس کیا جانا چاہیے۔ قانون کی حکمرانی (منصفانہ انکم ٹیکس کی بنیاد) قائم کرنے کا آغاز اسی سے ہونا چاہیے۔ یہ آنے والی جمہوری حکومت کا پہلا عوام دوست فیصلہ ہو سکتا ہے۔

مضمون نگار وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ دونوں متعدد کتابوں کے مصنف ہیں اور LUMS یونیورسٹی کی Visiting Faculty کا حصہ ہیں۔