زمان خاں میری نظر میں پاکستان میں عدلیہ کی تاریخ بھی پاکستان کی تاریخ کا پرتو ہے۔
لوگ سیاسی جماعتوں کی تاریخ اور حکومت کا تجزیہ کرتے ہیں یعنی وزیر اعظم اور چیف ماشل لا ایڈمنسڑیڑ کا۔ اسی طرح حکومت کے مختلف اداروں کے سربراہان کے کردار کا تجزیہ کرتے ہیں اور اپنے اپنے حساب اور نقطہ نظر سے ان پر روشنی ڈالتے ہیں۔
پاکستان میں عدلیہ کی تاریخ اور اس کے مختلف سربراہان کے دور کے بارے میں بھی بات ہوتی ہے۔ عدلیہ کے مختلف سربراہان کے دور کا تجزیہ بھی کیا جاتا ہے۔ عدلیہ پر کچھ کتابیں بھی لکھی گئی ہیں مگر میری نظراب تک لکھی جانے والی ساری کتابوں میں نسبتاً سب سے بہتر کتاب سینیئر سپریم کورٹ کے وکیل حامد خان کی ہے۔
ماضی قریب میں ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو آپ ایک طریقہ سے موجودہ عدلیہ کا ’نیا باپ‘ بھی کہہ سکتے ہیں (اصلی باپ تو جسٹس منیر تھے) کیونکہ انہوں نے بطور سپریم کورٹ کے جج کے مختلف کردار ادا کیے۔ وہ پنجابی تھے لیکن کیونکہ ان کا خاندان قیام پاکستان کے بعد بلوچستان میں آباد ہو گیا تھا اس لئے وہ بلوچستان سے پہلے ہائی کورٹ، پھر سپریم کورٹ کے جج اور چیف جسٹس بنے۔
انہوں نے پہلے جنرل مشرف کے دور میں PCO کے تحت حلف اٹھایا اور جنرل مشرف کے مارشل لا کو درست قرار دیا مگر بعد میں ان کا جنرل مشرف سے اختلاف ہو گیا۔ جنرل مشرف ان کے اس قدر مخالف ہو گئے کہ ان کو برطرف کر دیا۔
اس غیر آئینی حکم کوجسٹس افتخار محمد چوہدری نے ماننے سے انکار کر دیا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ پاکستان کے چیف جسٹس کو ایک تھانیدار نے بالوں سے پکڑا ہوا ہے اور انہیں اپنے دفتر میں جانے نہیں دیتا۔ کیونکہ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا تھا کہ ایک چیف جسٹس نے فوج کے چیف اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریڑ کا کہنا ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اس لئے پاکستان میں عدلیہ کے حقوق کی ایک نئی تاریخ رقم ہوئی۔
میں اس جدوجہد کی تاریخ میں نہیں جانا چاہتا۔ صرف اتنا عرض ہے کہ جب وہ ریٹائر ہوئے تو میں نے لکھا ’وکھری ٹائپ کا چیف جسٹس‘۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے فوجی سربراہ کا غیر قانونی حکم نہیں مانا۔ وکلا اور ججوں نے بھی ان کا ساتھ دیا اور وہ بحال ہوئے۔ جنرل مشرف کے زوال میں انہوں نے بہت ہی اہم اور کلیدی کردار ادا کیا۔ جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
مگر بحالی کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ کو ’عوامی‘ (ماما جی کی عدالت!) بنا دیا اور پھر ان کے اپنے حامی بشمول ان کے اپنے وکیل اعتزاز احسن بھی ان سے ناراض ہو گئے۔ یہ بات میرے ذاتی علم میں ہے کہ ان کے ہیومن رائٹس سیل میں لوگ کیس لگوانے کے لئے کارندوں کا ہاتھ گرم کرتے تھے۔ بدقسمتی سے وہ آج ایک متنازعہ شخصیت بن گئے ہیں کیونکہ انہوں نے عدلیہ کے نظام کو بہتر بنانے میں کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔ سیاسی پارٹی بنا کر انہوں نے عوام میں اپنا رہا سہا امیج بھی خراب کر لیا۔
ان کے بعد چیف جسٹس بننے والوں نے ان کے راستے پر چلنا مناسب نہیں سمجھا، لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے بعد آنے والوں نے اپنے کام سے کام رکھا سوائے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے جنہوں نے ’اردو‘ کے نفاذ کے بارے میں رومانوی فیصلہ دے دیا جس پر عمل نہیں ہو رہا اور موجودہ حالات میں کرنا غالباً ممکن بھی نہیں ہے۔
ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور چیف جسٹس ثاقب نثار میں یہ قدر مشترک ہے کہ ان کے ادوار میں سپریم کورٹ نے پاکستان کے وزیر اعظم کو نا اہل قرار دیا۔ دوسرا، دونوں نے آئین کی شق 184(3) کا بے جا اور بے تحاشہ استعمال کیا۔
جسٹس ثاقب نثار تو ایسے لگتا تھا کہ کوئی سیاستدان یا انتظامیہ کے سربراہ ہیں اور معاشرے کے ہر حصے کو درست کرنے کا بیڑا انہوں نے اپنے سر پر اٹھا لیا ہے (خدائی خدمت گار، سوائے نظام عدل میں مثبت تبدیلیوں کے)۔
لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے دور میں عدلیہ نے نہ صرف پارلیمان کا قانون سازی کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیا بلکہ ملک کے انتظامی فیصلے بھی اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ گو ماضی میں بھی دانشور اور سیاستدان عدلیہ پر تنقید کرتے تھے مگر ان کے دور میں ’توہین عدالت‘ میں جتنے لوگوں کو نوٹس اور سزا دی گئی اس کی نظیر ماضی میں ملنی مشکل ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں عوام کو بہت مشکلات کا سامنا ہے اور موجودہ سارے کا سارا نظام ہی ناانصافی اور استحصال پر مبنی ہے مگر اس سے نمٹنے کا سب سے بہتر طریقہ جو اب تک انسانی تاریخ میں سامنے آیا ہے وہ جمہوری اداروں کی مضبوطی اور بالا دستی ہے مگر یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کے عمل سے پاکستان میں جمہوریت کمزور ہوئی ہے اور غیر جمہوری قوتیں مضبوط ہوئی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں پانی کا مسئلہ بہت اہم ہے اور مستقبل قریب میں سنگین ہو سکتا ہے مگر اس کے لئے ڈیم فنڈ قائم کرنا صرف ایک Gimmic ہی کہا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ہسپتالوں پر چھاپے مارنا اور انتظامیہ کے افسران کی تنخواہوں اور ان کی تقرریوں وغیرہ کے بارے میں ضرورت سے زیادہ وقت دینا دراصل انصاف کے لئے دیے گئے وقت سے ناانصافی تھی۔
184(3) کے بےجا اور ضرورت سے زیادہ استعمال کے بارے میں نہ صرف پاکستان کے اندر بلکہ دنیا بھر میں بھی انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔
عمران خان کے بارے میں انصاف کا ایک معیار تھا اور دوسرے سیاستدانوں خاص کر نواز شریف کے بارے میں دوسرا معیار تھا۔
دراصل میری نظر میں کسی بھی ادارے کے سربراہ خاص کر چیف جسٹس کو جاننے کا ایک ہی معیار ہے۔ وہ یہ کہ کیا اس نے اپنے ادارہ کو بہتر بنانے میں کوئی عملی اور ٹھوس قدم اٹھایا؟ کیا عدلیہ کا نظام بہتر ہوا؟ کیا ثاقب نثار صاحب نے عدلیہ سے کرپشن ختم کرنے کی طرف کوئی قدم اٹھایا؟ کیا لوگوں کو جلد اور سستا انصاف ملنا شروع ہو گیا ہے؟
اگر کوئی چیف جسٹس میڈیا میں دن رات رہتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے اصل کام پر توجہ نہیں دے رہا اور یہ عدلیہ کے نظام سے نا اصافی ہے۔
میں نے ایک دفعہ چیف جسٹس یعقوب چوہدری سے انڑویو کی درخواست کی تو ان کا جواب تھا judge speaks through his judgements کیا چیف صاحب سے پوچھا جا سکتا ہے کہ وہ اسلام آباد سے ISIکی قائم کردہ رکاوٹوں کو کیوں نہیں ہٹا سکے؟
پاکستان میں گم شدہ افراد کی بازیابی کے لئے انہوں نے کیا کیا؟
لسٹ بہت لمبی ہے اور یہ بنیادی طور پر legal franternity کا فرض ہے کہ وہ جسٹس ثاقب نثار کے دور کا ناقدانہ اور بے لاگ تجزیہ پیش کریں۔ (سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل بابر ستار یہ کام ان کے دور میں ہی کرتے رہے ہیں)۔
ہندوستان کی عدلیہ میں حال ہی میں ایک وقت آیا کہ سپریم کورٹ کے سینیئر ججوں نے چیف جسٹس کے خلاف پریس کانفرنس کر دی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کے سبک دوش ہونے سے پہلے جسٹس منصور علی شاہ کا فیصلہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ عدلیہ کے سمندر میں بہت current and cross current جاری ہیں اور ان کا اظہار وقتاً فوقتاً ہوتا رہے گا۔
میری نظر میں سپریم کورٹ کے تمام ججز کا مرتبہ ایک جیسا ہے۔ چیف صرف انتظامی طور پر سربراہ ہوتا ہے اور اسے بھی فیصلے کرنے کا اتنا ہی اختیار ہوتا ہے جتنا کہ دوسرے ججوں کو۔
نئے چیف جسٹس آصف کھوسہ کو اس بات کا ادراک ہے کہ وہ کس موقعہ پر چیف جسٹس بنے ہیں۔ ہم صرف دعا ہی کر سکتے ہیں کہ وہ ملک میں نظام عدل کو بہتر بنانے میں کوئی ٹھوس قدم اٹھا سکیں۔
پنجابی میں کہتے ہیں کہ ہاتھوں سے باندھی ہوئی گانٹھوں کو دانتوں سے کھولنا پڑتا ہے! انہوں نے چیف جسٹس ثاقب نثار کی الودائی تقریب میں جو تقریر کی وہ اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ ان کو اعلیٰ عدلیہ کے حقوق و فرائض اور limits کا پورا پورا علم ہے (pragmatic approach)۔
میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ اگر وہ عدلیہ میں شفافیت، سستا اور بروقت انصاف کا نظام اور اس کے ساتھ ساتھ کسی حد تک کرپشن ختم کر دیں تو یہ قوم پر بہت بڑا احسان ہوگا۔
اصلاحات اور احتساب گھر سے شروع ہونی چاہیے۔
آخر میں چیف جسٹس کی تقریر کے چند الفاظ ملاحظہ ہوں جس میں انہوں نہ نہایت مہذب طریقہ سے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی پالیسیوں سے اختلاف کا اظہار کیا۔ ’میں ڈیم بنانا چاہتا ہوں، ایک ڈیم عدالتی مقدمات میں غیر ضروری تاخیر کے خلاف، ایک غیر سنجیدہ قانونی چارہ جوئی اور جعلی عینی شاہدین اور جعلی گواہوں کے خلاف اور یہ بھی کوشش کروں گا کہ قرض اتر سک ، زیر التوا مقدمات کا قرض، جنہیں جلد از جلد نمٹایا جا سکے۔۔۔‘