دی نیوز اور جنگ میں سینئر صحافی انصار عباسی کی ایک رپورٹ کے مطابق اسٹیبلشمنٹ حکومت اور اپوزیشن کو ایک جگہ بٹھانے اور قومی ایجنڈا طے کرنے کیلئے راضی ہوگئی ہے۔
انہوں نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ملک کی معیشت، گورننس، احتساب، انتخابی اور عدالتی نظام جیسے بنیادی معاملات کو درست کرنے کی خاطر اسٹیبلشمنٹ نے متفقہ قومی ایجنڈے کی تیاری کیلئے حکومت اور اپوزیشن کو ملاکر بٹھانے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔
اگر دونوں فریقین مل بیٹھ کر مذاکرات کے لیے راضی ہو جاتے ہیں تو وہ آپس میں جلد انتخابات سمیت مستقبل کے لائحہ عمل کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔
ایک باخبر ذریعے نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کسی فریق کی حمایت نہیں کرے گی، نیوٹرل رہے گی لیکن وزیراعظم عمران خان اور اپوزیشن رہنماؤں کی حوصلہ افزائی کرے گی تاکہ وہ بہتر مستقبل، مضبوط معیشت اور ملک کے سیاسی استحکام کیلئے مل بیٹھیں اور بات کریں۔
اسٹیبلشمنٹ نے حال ہی میں کی جانے والی کچھ کوششوں کا جواب دیا ہے، ان کوششوں میں اسٹیبلشمنٹ سے مدد مانگی گئی تھی کہ حکومت اور اپوزیشن کو ایک جگہ بٹھانے اور قومی ایجنڈا طے کرنے میں مدد دی جائے۔
تنازعات سے بچنے کے لیے ملٹری اسٹیبلشمنٹ ایسا کوئی کردار ادا کرنے سے بھی ہچکچا رہی تھی لیکن باخبر ذریعے کا کہنا تھا کہ اب اسٹیبلشمنٹ نے حکومت اور اپوزیشن میں مذاکرات کرانے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ بصورت دیگر خدشہ ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام میں اضافہ ہوگا۔
کہا جاتا ہے کہ اس اقدام کے نتیجے میں ملک میں رواں سال جلد انتخابات کرانے کا فیصلہ بھی ہو سکتا ہے جبکہ اہم عہدوں پر تقرریوں کے بارے میں بھی فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
ذریعے نے یقین دہانی کرائی کہ اسٹیبلشمنٹ کا کردار خالصتاً سہولت کار کا ہوگا تاہم، انہوں نے کہا کہ سیاست دانوں سے توقع ہے کہ وہ کم از کم قومی ایجنڈے پر اتفاق کرلیں اور اگر یہ منظور ہوگیا اور اس پر عمل کیا گیا تو اس سے ملک کی سمت کا تعین ہوجائے گا۔
ساڑھے تین سال کے دوران وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ بھی اپوزیشن سے بات نہیں کی۔ انہوں نے اپوزیشن والوں کو نظر انداز کیا حتیٰ کہ قومی اہمیت کے حامل اجلاسوں میں بھی اپوزیشن والوں کے ساتھ نہیں بیٹھے۔
عمران خان کے اقتدار میں آتے ہی اپوزیشن رہنماؤں جن میں شہباز شریف اور آصف زرداری شامل تھے، نے پالیسی سازی کے معاملے میں حکومت کو اپنی حمایت کی پیشکش کی لیکن عمران خان نے انہیں مثبت جواب نہ دیا۔
گزشتہ ہفتے دی نیوز میں خبر شائع ہوئی تھی کہ حکومت کے ایک اہم عہدیدار نے تقسیم کی موجودہ سیاست کو ختم کرنے میں مدد دینے اور اپنا کردار ادا کرنے کیلئے ایک طاقتور شخصیت سے رابطہ کیا ہے اور کہا ہے کہ تقسیم کی اس سیاست سے عوام کا زبردست نقصان ہو رہا ہے اور اپوزیشن کی وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اس تقسیم میں مزید اضافہ ہوگا۔
یہ مدد کسی پارٹی کی حمایت حاصل کرنے یا کسی اور مقصد کیلئے طلب نہیں کی گئی تھی بلکہ اس کا مقصد ایک طرف عدم اعتماد کی تحریک سے بچنا، جلد انتخابات کی راہ ہموار کرنا اور بہتر سیاست اور اچھی طرز حکمرانی کے لیے اصلاحات لانا تھا۔
دی نیوز نے سرکاری عہدیدار سے رابطہ کیا، وہ موجودہ صورتحال سے بہت پریشان تھے اور انہیں خدشہ تھا کہ حالات جیسے جیسے آگے بڑھیں گے تقسیم کی سیاست میں مزید اضافہ ہوگا جو کسی بھی سیاسی جماعت، ادارے اور سب سے بڑے کر ملک کے عوام کے مفاد میں نہیں ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے اس نمائندے کو بتایا کہ اس وقت حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بہتر رابطے کے قیام کے لیے مدد کی ضرورت ہے تاکہ اپوزیشن اور حکومت والوں کو ایک جگہ بٹھا کر مستقبل کے سیاسی روڈ میپ اور اصلاحات کے ایجنڈے پر اتفاق کرایا جائے جس سے ملک کے عوام کا مستقبل اور پاکستان میں جمہوریت کو فائدہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کام اچھے ثالث اور ضامن کے بغیر ممکن نہیں۔