عمران خان کے پاس دو کارڈز، 27 مارچ کو اپنے استعفے یا اہم ادارے کے سربراہ کا اعلان کر سکتے ہیں

عمران خان کے پاس دو کارڈز، 27 مارچ کو اپنے استعفے یا اہم ادارے کے سربراہ کا اعلان کر سکتے ہیں
سینئر تجزیہ کار افتخار احمد نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان 27 مارچ کو جلسے میں ہو سکتا ہے کہ ملک کے اہم ادارے کے سربراہ یا استعفے کا اعلان کردیں لیکن وہ وزارت عظمیٰ چھوڑ دیں اس کا امکان بہت ہی کم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان کو اس روز مجمع زیادہ مل گیا تو نہ جانے وہ کیا کیا اعلانات کر دیں۔ اگر ایسا ہوا تو اس کے بعد آئندہ سال انتخابات تک جو کھچائو پیدا ہوگا، اس کی ذمہ داری کس پر ہوگی۔ یہ کھچائو گہرا اور خطرناک ہوگا اور واقعی ملک کی چولہیں ہلا کر رکھ دے گا۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں اپنا سیاسی تجزیہ پیش کرتے ہوئے افتخار احمد کا کہنا تھا کہ یہ بات بھی یاد رکھی جائے کہ اٹھارہویں ترمیم میں ایک عجیب بات ہوئی ہے اور وہ یہ کہ ناصرف پاور بلکہ سیاست بھی صوبوں تک چلی گئی ہے۔ سیاسی جماعتیں خود کو محدود پیمانے پر استعمال کر رہی ہیں۔ قومی سطح پر ان کی ان پٹ اتنی زیادہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئندہ انتخابات میں بھی سندھ پیپلز پارٹی کے پاس رہے گا۔ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت برقرار رہ سکتی ہے۔ صوبہ پنجاب مسلم لیگ ن کے پاس واپس آ جائے گا۔ جبکہ بلوچستان میں مخلوط حکومت بنے گی۔

سینئر صحافی کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ وفاق میں کیا ہوگا؟ اور ایک دم سے اس میں سابق صدر آصف زرداری کی دلچسپی کیوں بڑھ گئی ہے؟ مجھے لگتا ہے کہ وفاق میں ایسی پارلیمنٹ لانے کی کوشش کی جائے گی جس میں سب خوش رہیں۔

افتخار احمد نے کہا کہ ان حالات میں فرض کریں کہ اگر وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو ان کو فوری طور پر نئے انتخابات کی طرف جانا پڑے گا لیکن اگر اپوزیشن جماعتوں نے ایسا نہ کیا تو عمران خان ان کا جینا حرام کر دے گا۔ کچھ دوست سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی ختم ہو جائے گی، میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتا۔

جسٹس قاضٰ فائز عیسیٰ کی جانب سے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو لکھے گئے خط پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس میں جو سوالات اٹھائے گئے ہیں، وہ بہت ہی اہم ہیں لیکن مناسب ہوتا کہ وہ اپنے برادر ججز کیساتھ جا کر ملتے تاکہ یہ بات ادارے کے اندر ہی محدود رہتی۔ انہوں نے جس طرح اسے پبلک میں ڈسکس کیا، میں اسے مناسب نہیں سمجھتا۔ اگر وہاں سے ان کو اچھی رائے نہ ملتی تو وہ اس کے بعد اسے شیئر کر سکتے تھے۔ اصولی طور پر جسٹس قاضی نے جو خط تحریر کیا اس میں بہت جان ہے، اس میں بہت ہی بنیادی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ ان کا جواب بنتا ہے لیکن میں ان کے اس طریقے سے اختلاف کرتا ہوں۔

اس موقع پر نادیہ نقی نے افتخار احمد سے سوال کیا کہ آپ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خط کے حوالے سے بات کی۔ کیا آپ کو یہ ظاہر نہیں ہو رہا کہ سپریم کورٹ میں اس وقت تقسیم ہے؟

اس کا جواب دیتے ہوئے افتخار احمد نے کہا کہ تقسیم تو پاکستان میں ہر طرف موجود ہے۔ حتیٰ کہ ہمیں اسٹیبلشمنٹ کے اندر بہت تقسیم نظر آتی ہے اور ہر آنے والے دن میں یہ مزید گہری ہوتی جا رہی ہے۔ ہم اس کی وجوہات کو جان کر اس کا حل تلاش کرنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ یہ مسئلہ بہت خوفناک ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالتوں نے پہلے بھی ایسے فیصلے کئے جس کا اسٹیبلشمنٹ اور ان کے حامیوں کو فائدہ ہوا۔ اگر ایسا فیصلہ ہوتا ہے تو یاد رکھیں کہ 2023ء الیکشن کا سال ہے۔ یہ سال تو گزار لیں گے لیکن آگے تقسیم مزید گہری سے گہری ہوتی جائے گی۔