نون لیگ کا ریموٹ اب مریم نواز کے پرس میں

بھٹو کی پھانسی، جنرل ضیاءالحق کا طیارہ تباہ ہونا یا پھر بے نظیر بھٹو پر خود کش حملہ ہو، پاکستانی سیاست تبدیلی کے لیے ہمیشہ حادثات کی منتظر رہی ہے۔ ان حادثات نے ماضی میں جن سیاسی کرداروں کو جنم دیا، وہ آج کے پاکستان میں سیاسی منظر نامے کا بیانیہ لکھ رہے ہیں۔ حادثات کے علاوہ پرویز مشرف کا این آر او، عمران خان کا دھرنا اور  ویکی لیکس پر سپریم کورٹ کے فیصلے جیسے واقعات بھی ماضی میں سیاسی تبدیلیوں کی وجہ بنتے رہے ہیں۔

آج کے سیاسی پاکستان میں مسلم لیگ نواز کے بانی، تاحیات چیئرمین اور رہبر جناب نوازشریف کی بیرون ملک علاج اور مستقل ضمانت کی درخواست سپریم کورٹ سے مسترد ہوتے ہی شہباز شریف نے بھی عملی سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کردیا تھا۔ پارٹی کے تین سینئر نائب صدور اور 16 نائب صدور مقرر کیے گئے۔

مریم نواز نے ٹویٹر سے آغاز کیا اور پھر زرداری ٹولے سے افطار ڈنر پر ملاقات کی۔ اسلام آباد میں پارٹی اجلاس بھی بلایا جس میں موجود سینئر قیادت کے بیٹھنے کی ترتیب اور باڈی لینگوئج بہت کچھ بتا رہی تھی۔ انہوں نے گزشتہ روز بہاولپور میں تعزیتی تقریب میں سیاسی گفتگو بھی کی ہے۔ مریم برانڈ کی سیاسی بیان بازی شروع ہو چکی ہے۔ احسن اقبال نے ٹویٹر پر مسلم لیگ نواز کی طرف سے طلال چودھری کی زبان درازی پر معافی مانگی ہے۔ اب سلیکٹڈ کی بجائے چوراور نالائق پر زور ہو گا۔ لگتا ہے کچھ شرائط کے ساتھ دوبارہ سیاسی بیان بازی کا آغاز ہو گیا ہے۔

حقیقت بھی یہی ہے کہ میاں برادران نے نئے سیاسی پیڈ پر پرانا نسخہ لکھ کر بچوں کو دے دیا ہے۔ اس نسخے کے مطابق، اب مریم نواز باپ کی سیاسی گدی سنبھالیں گی جب کہ حمزہ شہباز فی الحال مریم کے پہلو میں ’’نظر وٹو‘‘ کا کردار ادا کریں گے اور اقتدار ملنے کی صورت میں انہیں پنجاب کا وزیراعلیٰ  بنا دیا جائے گا۔ اس خاندانی حکمت عملی کے تحت پہلے حالات کو سازگار بنایا جائے گا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ پہلے ہی اپنے فیصلوں کا رُخ مریم کی طرف موڑنے کے لیے تیار کھڑی ہے۔ نیب کے اوچھے ہتھکنڈوں کا ازالہ لاہور ہائی کورٹ کے سپرد کیا گیا ہے۔ تب تک کچھ وفادار، تابعدار اور شکرگزار لیکن تجربہ کار مسلم لیگی پاڑٹی قیادت کی اداکاری کے فرائض سرانجام دیں گے۔ تاہم کسی بھی وقت ممکنہ انتخابات اور اقتدار کی امید سے پہلے قیادت کا مکمل بوجھ مریم اور حمزہ کے مضبوط کندھوں پر آجائے گا۔ اگر بدقسمتی سے حالات میں تبدیلی نہ آئی تو اگلے چار سال اسی فرضی قیادت کی ڈوریاں رائیونڈ سے کھینچی جائیں گی۔



مسلم لیگ نواز کی سیاسی بس کا ریموٹ کنٹرول اب مریم نواز کے پرس میں ہے۔ ادارے اور مقتدر حلقے تو کب سے یہ جانتے ہیں، تاہم اب اس راز سے پردہ عوام کے لیے بھی اٹھا دیا گیا ہے۔

مریم نواز نے جس سیاسی ماحول میں پرورش پائی ہے وہاں اب انہوں نے اس سیاسی بس کا ڈرائیور اور گارڈ ہی نہیں بلکہ سواریاں بھی اپنی مرضی سے بٹھانی ہیں۔ کسی ایک وقت میں بس کے اندر بیٹھی اور کھڑی سواریوں کی تعداد، بیٹھنے کی ترتیب اور طریقہ حتیٰ کہ چھت پر موجود افراد کا چناؤ بھی وہ خود کریں گی۔ مسلم لیگ نواز کی اس بس کی فرنٹ سیٹ اور اس کے ساتھ جُڑی بے بی سیٹ بالترتیب مریم نواز اور حمزہ شہباز کے لیے مختص رہے گی۔ حالات کے ٹھیک ہونے تک اس سیاسی بس کو سب مل کر چلائیں گے۔ سٹیئرنگ شاہد خاقان عباسی کے پاس ہو گا جبکہ ہارن پر طلال چودھری کا ہاتھ ہو گا۔ ریس پیڈل رانا تنویر کے پاؤں میں ہو گا تاکہ تیزرفتاری سے بچاجا سکے۔ ہینڈ بریک احسن اقبال کے قابو میں ہو گی جبکہ بریک پیڈل پر خواجہ آصف کا پاؤں ہو گا۔ خرم دستگیر گارڈ کے فرائض سرانجام دیں گے جبکہ پرویزرشید کنڈکٹر کے علاوہ رفتار اور درجہ حرارت کی سوئی اور سواریوں پر بھی نظر رکھیں گے۔

تمام سواریاں انگوٹھے کے تازہ نشان کے لئے رائیونڈ دفتر میں حاضری دیں گی جہاں نئے ’’مریم کارڈ‘‘  کا اجرا کیا جائے گا۔ اس کی میعاد اگلے الیکشن تک ہوگی۔ مسلم لیگ نواز کی بس میں داخلے حتیٰ کہ چھت پر بیٹھنے کے لئے اس کارڈ کا ہونا ضروری ہو گا۔ بس میں سیاسی گفتگو، احتجاج یا مرضی اور پسند کے برعکس بات کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ مزاحمت کی صورت میں چلتی بس سے سیاسی خودکشی کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ چودھری نثار کے سبق آمیز پوسٹر بھی آویزاں ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ نائب صدور کی فوج میں سے کچھ افسران چھٹی پر چلے جائیں تاہم کسی کے بھگوڑے یا لاپتہ ہونے کے امکانات نہیں ہیں۔

خواجے ہوں یا رانے راجے
بجاتے رہ گے صرف باجے
کھو سے گئے حمزہ دیوانے
باقی بچ گئے چار سیانے
خاموش ہو گئے چہرے پُرانے
سیانے ہوئے مریم کے سرہانے


اگرچہ شہباز شریف نے پاکستان آنے کا عندیہ بھی دیا ہے لیکن کیا یہ واپسی اب سیاسی طور پر کوئی بڑی حیثیت رکھتی ہے؟ شہبازشریف اگر بجٹ سے پہلے یا بعد میں واپس بھی آ جائیں تو وہ عملی سیاست میں حصہ لیتے نظر نہیں آتے۔ ہو سکتا ہے کہ بیٹے کی نئی سیاسی حیثیت پر وہ دلبرداشتہ ہو کر جذباتی ہو جائیں اور غصے میں سیاسی طور پر متحرک ہوجائیں تو صورت حال کافی دلچسپ ہو جائے گی۔ تاہم شہبازشریف جانتے ہیں کہ نیب انہیں پاکستان میں آرام سے بیٹھنے نہیں دے گی اور پھر ان کی موجودگی میں مریم بی بی کو رائیونڈ میں سکون کی نیند نصیب نہیں ہو گی۔ میری رائے میں اگر شہبازشریف ایک دفعہ آ بھی گئے تو زیادہ وقت ملک سے باہر گزاریں گے یا خدانخواستہ اندر بھی ہو سکتے ہیں۔



مریم نواز کی بڑھتی ہوئی سیاسی اور قائدانہ سرگرمیوں کو دیکھ کر آج کے پاکستان میں جمہوریت کی مضبوطی، حسن اور اوقات تینوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ اگلے کم از کم کچھ عرصہ کے لیے عمر رسیدہ، تجربہ کار اور منجھے ہوئے سیاستدان ایک ساتھ فرضی قیادت کا لبادہ اوڑ کر 16 نائب صدور کی موجودگی میں پارٹی اور ملکی معاملات پر بیانیے جاری کیا کریں گے۔ اس دوران وہ ناصرف ایک دوسرے کی حیثیت جانتے ہوں گے بلکہ نائب صدور کی فوج اور باقی چھوٹے بڑے مسلم لیگی بھی اس راز سے واقف ہوں گے اور یہی پاکستانی برانڈ کی جمہوریت کا حسن بھی ہے۔ مریم نواز کے پاس اعلیٰ تعلیم کی سند ہے اور پرویز رشید نے بڑے میاں کے کہنے پر تمام سیاسی داؤ پیچ بھی سکھا دیے ہیں۔ اب صرف عدالت سے اقتدار کا پروانہ اور محکموں سے ’’این او سی‘‘ ملنے کی دیر ہے اور یہ ملک ترقی کی راہ پر دوبارہ گامزن ہو جائے گا۔

مریم ہے سب کی انکھ کا تارا
جیسے بھی ہو اب کرو گزارہ
مریم کا اب ایک ہی ہے نعرہ
عزت اس کی اور ووٹ ہمارا