غلط انجیکشن لگنے کے باعث جاں بحق ہونے والی ننھی پری نشوا کے والدین اور دارالصحت ہسپتال کی انتظامیہ کے درمیان تین نکاتی معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت نشوا کے والدین نے ہسپتال انتظامیہ کے خلاف مقدمہ واپس لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
تحریری مصالحت نامے پر نشوا کے والدین قیصر علی و شمائلہ قیصر اور دارالصحت انتظامیہ کے چیئرمین امیر ولی الدین چشتی اور وائس چیئرمین سید علی فرحان نے دستخط کیے۔
معاہدے کے مطابق، نشوا کے والد دارالحصت ہسپتال کے خلاف دائر مقدمہ واپس لے لیں گے اور اس وقت تک کسی بھی قسم کے ہرجانے کے دعویدار نہیں ہوں گے تاقتیکہ ہسپتال انتظامیہ معاہدے کی دیگر شقوں کی خلاف ورزی نہیں کرتی۔
اس ضمن میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہسپتال کا انتہائی نگہداشت یونٹ نشوا کے نام سے منسوب کیا جائے گا جس میں مستحق اور ضرورت مند بچوں کا علاج مفت کیا جائے گا۔
معاہدے کے تحت، ہسپتال انتظامیہ ضرورت مند والدین کے بچوں کے لیے سالانہ 50 لاکھ روپے کا ’’ نشوا فنڈ‘‘ شروع کرے گی۔
معاہدے کے مطابق، ہسپتال حکام نشوا سکالر شپ پروگرام کے تحت ہر سال ایک میڈیکل طالبہ یا طالب علم کو مکمل سکالر شپ فراہم کرنے کے پابند ہوں گے اور میرٹ پر آنے والے طالب علم کا انتخاب نشوا کے والدین کریں گے۔
معاہدے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہسپتال سندھ کیئر کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد کرے گا اور متعلقہ حکام کی ہدایت کے مطابق، ناگزیر اقدامات کرے گا جب کہ متاثرہ خاندان کراچی کے شاہ فیصل پولیس اسٹیشن میں درج مقدمے کی پیروی نہیں کرے گا۔
معاہدے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر پولیس تفتیش میں ہسپتال کی نرس ثوبیہ اور نرسنگ اسسٹنٹ معیز کے خلاف مقدمہ قائم ہوتا ہوا تو نشوا کے والدین اس سے دستبردار ہو جائیں گے۔
تاہم فی الحال یہ واضح نہیں ہو سکا کہ متاثرہ خاندان نے پولیس کو تحقیقات روکنے کے لیے باقاعدہ کوئی درخواست دی ہے یا نہیں۔
معاہدے میں کہا گیا ہے، اگر ہسپتال نے معاہدے کی کسی بھی شق کی خلاف ورزی کی تو نشوا کے والدین دوبارہ کارروائی کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
واضح رہے کہ ننھی پری نشوا کو سات اپریل کو پیٹ میں درد کے باعث کراچی کے دارالصحت ہسپتال لایا گیا تھا۔
بعدازاں رواں ماہ کی 15 مئی کو تین رکنی میڈیکل بورڈ نے اپنی فارنزک رپورٹ میں یہ تصدیق کر دی تھی کہ پوٹاشیم کلورائیڈ کا انجیکشن نبض میں لگائے جانے کی وجہ سے نشوا کے مختلف اعضا ناکارہ ہونے کے باعث اسے دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔
واقعہ کے بعد ہسپتال سیل کر دیا گیا تھا جس کے مالکان عامر چشتی اور سید علی فرحان کے علاوہ طبی عملے کے متعدد ارکان کو بھی مقدمے میں نامزد کیا گیا تھا جن کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعات 302، 322، 337 اور 34 کے تحت بچی کے والد قیصر علی کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔