یہ واضح رہے کہ نوجوت سنگھ سدھو نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ اگر راہول گاندھی کو شکست ہوئی تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے بھارتی عوام انسے وعدے کے مطابق سیاست چھوڑنے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔
Sir reminder @sherryontopp ?
I will quit politics, if Rahul Gandhi loses Amethi: Navjot Singh Sidhu.
https://t.co/bbYID9jzGW
— Ibn Sina (@Ibne_Sena) May 23, 2019
واضح رہے کہ بھارت میں مودی کی جماعت بی جے پی کو اکثریت حاصل ہو گئی ہے مودی لہر کے درمیان پنجاب ہی واحد ایسی ریاست ہے ، جہاں کانگریس اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کررہی ہے ۔ یہاں کی 13 سیٹیوں میں سے کانگریس کو 8 سیٹیوں پر سبقت حاصل ہے ، بی جے پی دو سیٹ پر آگے ہے جبکہ شیرومنی اکالی دل کو دو سیٹیں ملتی دکھائی دے رہی ہیں ۔
بھارت میں سات مرحلوں میں ہونے والے لوک سبھا کے عام انتخابات کے ووٹوں کی گنتی کا آغاز آج صبح ہو چکا ہے جس کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ایگزٹ پولز کے مطابق ایک بار پھر آگے ہیں اور اب تک موصول ہونے والے نتائج میں بھی انہیں واضح برتری حاصل ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق، ووٹوں کی گنتی کا عمل اگلے چند گھنٹوں میں مکمل کر لیا جائے گا جب کہ کچھ ہی دیر میں صورت حال بڑی حد تک واضح ہونا شروع ہو جائے گی۔
واضح رہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ میں ہونے والے انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد قریباً 90 کروڑ ہے جنہوں نے بھارت کے ایوان زیریں یا لوک سبھا کی 542 نشستوں پر اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ہے۔
یاد رہے کہ انتخابی عمل کا آغاز 11 اپریل کو ہوا تھا جو چھ ہفتے جاری رہے اور سات مراحل میں مکمل ہوئے۔بہت سے مبصرین کے خیال میں یہ انتخابات نریندر مودی کے لیے ریفرینڈم کی حیثیت رکھتے ہیں کیوں کہ ان کی معاشی اصلاحات تو کامیاب نہیں ہوئیں تاہم مختلف طبقات میں منقسم بھارتی معاشرے میں ان کی مقبولیت میں حیران کن اضافہ ہوا ہے جس کی ایک بڑی وجہ سوشل میڈیا بھی ہے۔
مختلف اداروں کی جانب سے کیے جانے والے کم از کم نصف درجن ایگزٹ پولز میں نریندر مودی اور ان کی جماعت اگلے پانچ برسوں کے لیے اقتدار میں نظر آ رہی ہے تاہم بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ ایگزٹ پولز پر اندھا یقین کرنا مناسب نہیں ہے۔
انتخابات کے دوران ووٹنگ کے لیے قریباً چار کروڑ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال کیا گیا، تاہم اس بار یہ ایک بار پھر متنازع بن چکی ہیں۔
بھارت میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال کا آغاز 15 برس قبل ہوا تھا کیوں کہ کاغذ کے بیلٹ پیپرز کی گنتی میں دھوکہ دہی کی شکایات میں نمایاں اضافہ تو ہوا ہی تھا بلکہ سیاسی جماعتیں ایسے افراد کا ستعمال کرنے لگی تھیں جو زبردستی گن پوائنٹ پر بیلٹ پیپر پر ٹھپہ لگواتے تھے جس کے باعث حکام نے انتخابات میں شفافیت کے لیے یہ راہ تلاش کی۔
بات یہ نہیں ہے کہ الیکٹرانک مشینوں پر مکمل اعتماد کیا جاتا ہے۔ ہارنے والے امیدوار اور جماعتیں ان مشینوں کے قابل اعتبار ہونے کے حوالے سے ہمیشہ مشکوک رہی ہیں۔
یہ پیش نظر رہے کہ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور نیدر لینڈ کی طرح کے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال نہیں کیا جاتا۔
یہ پس منظر بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر اعتراض ایک بار پھر میڈیا شہ سرخیوں میں جگہ بنا رہا ہے بالخصوص جب سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی منتقلی کی ایک ویڈیو منظرعام پر آئی جس پر اپوزیشن رہنمائوں نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ ان مشینوں کو نتائج میں تبدیلی کے لیے منتقل کیا جا رہا تھا لیکن انڈین الیکشن کمیشن ان شکایات کو سنجیدہ نہیں لے رہا جس کا یہ کہنا ہے کہ ویڈیو میں نظر آ رہی مشینیں انتخابی عمل میں سرے سے استعمال ہی نہیں ہوئیں۔
شیئرکريں