پاکستان میں فضائی حادثوں کی تاریخ: پی ائی اے کی اہلیت پر بڑا سوالیہ نشان

پاکستان میں فضائی حادثوں کی تاریخ: پی ائی اے کی اہلیت پر بڑا سوالیہ نشان
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن ایک وقت میں دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں سے ایک تھی لیکن آج ایسا لگتا ہے کہ یہ کسی اور جہان کی باتیں ہیں۔ 1965 میں PIA کی تاریخ کا پہلا حادثہ پیش آیا جب کراچی سے لندن جانے والی بوئنگ 720 کی پہلی پرواز قاہرہ کے ایئرپورٹ پر اترتے ہوئے کریش کر گئی تھی اور 121 مسافروں میں سے محض 6 زندہ بچے تھے۔

1946 میں قائم ہونے والی PIA کا پہلا حادثہ مئی 1965 میں پیش آیا۔ اس کے بعد اگلے 27 سالوں میں دس حادثے پیش آئے لیکن گذشتہ صرف 17 سال کے دوران پاکستان 10 فضائی حادثوں سے گزر چکا ہے۔ یہ تمام حادثے PIA کے ساتھ پیش نہیں آئے لیکن پاکستان کی تاریخ کے بدترین حادثات میں سے گردانے جاتے ہیں۔ ان کی تفصیل درجِ ذیل ہے۔

20 فروری 2003

حالیہ تاریخ میں سب سے پہلا واقعہ 2003 میں پیش آیا جب ایک فوکر طیارہ F27، جو کہ پاکستان ایئر فورس کے استعمال میں تھا اسلام آباد میں چکلالہ ایئربیس سے اڑا اور کوہاٹ میں دھند سے ڈھکے پہاڑوں میں درہ کوہاٹ کی سب سے اونچی چوٹی سے ٹکرایا اور گر گیا۔ اس طیارے میں پاکستان کے ایئر چیف مارشل مصحف علی میر، ان کی بیگم اور دو ایئر وائس مارشلز سمیت کل 17 لوگ محوِ پرواز تھے۔ 2015 میں ایک انکوائری کمیشن نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ یہ طیارہ ٹیکنیکل خرابی کے باعث گرا، اور یہ بھی لکھا گیا کہ ایئر فورس نے یہ طیارہ نیوی کو دیا تھا لیکن وہاں سے اسے واپس کر دیا گیا تھا کیونکہ اس کی پرواز میں خرابیاں دیکھی گئی تھیں۔

24 فروری 2003

محض چار روز بعد ایک چارٹرڈ  Cessna 402-B پرافغانستان کے وزیر برائے کان کنی و صنعت جمعہ محمد خان محمدی پاکستان سے ایک سرکاری مشن سے واپس جا رہے تھے جب ان کا طیارہ کراچی کے قریب بحیرہ عرب میں جا گرا تھا۔ ان کے ساتھ جہاز میں چار افغان حکومتی اہلکار، ایک چینی ماہرِ کان کنی اور دو پاکستانی crew member سوار تھے۔

10 جولائی 2006

10 جولائی 2006 کو ایک PIA کا فوکر طیارہ ملتان سے لاہور اور اسلام آباد کے لئے اڑا لیکن ٹیک آف کے چند ہی لمحے بعد اس کے دونوں انجن فیل ہو گئے۔ اس حادثے میں 41 مسافر اور چار عملے کے اہلکار ہلاک ہوئے۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی نے اپنی حتمی رپورٹ میں بتایا کہ جہاز کے 48 سالہ پرانے انجنز میں سے ایک پرواز کے چند ہی لمحے بعد ناکارہ ہو گیا تھا لیکن پائلٹس کی غلط management کے باعث دوسرا انجن بھی فیل ہو گیا اور طیارہ گر گیا۔

28 جولائی 2010

2010 میں کراچی سے اسلام آباد جانے والی ایئر بلیو کی ایک پرواز لینڈ کرنے کی تیاری کر رہی تھی کہ طیارہ پائلٹ کے قابو سے باہر ہو گیا اور اسلام آباد کے پاس مارگلہ کی پہاڑیوں میں گر کر تباہ ہو گیا۔ اس طیارے میں 152 لوگ سوار تھے جن میں سے 146 مسافر جب کہ باقی crew members تھے۔ ان 152 میں سے کوئی بھی نہ بچ سکا۔ طیارے میں 147 پاکستانی شہریوں کے علاوہ دو امریکی، ایک آسٹریائی، ایک جرمن جب کہ ایک سومالی شہری بھی موجود تھے۔

5 نومبر 2010

جولائی 2010 میں ایئر بلیو کے حادثے کے بعد ایک اور نجی کمپنی JS Air کا بھی ایک طیارہ کراچی میں جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے ٹیک آف کے وقت ہی انجن خراب ہونے کے باعث تباہ ہو گیا۔ حادثے میں 21 کے 21 مسافر جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ طیارہ ایک اطالوی آئل کمپنی کے ملازمین کو بھٹ شاہ ایئر فیلڈ لے کر جانے والا تھا لیکن سول ایوی ایشن کے مطابق اس مرتبہ بھی کیپٹن کی نااہلی کے باعث یہ طیارہ تباہ ہو گیا۔

28 نومبر 2010

اس حادثے کے محض تین ہفتے بعد کراچی ایئر پورٹ سے ٹیک آف کے دوران ہی ایک اور حادثہ پیش آیا جب کراچی سے خرطوم، سوڈان جانے والی Sun Way Flight 4412 میں آگ لگ گئی اور اس نے کراچی کی طرف واپسی کی راہ لی لیکن طیارہ آگ کا گولہ بن چکا تھا اور یہ جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر واقع رن وے سے تین کلومیٹر دور ایک نیوی افسران کے لئے زیرِ تعمیر ہاؤسنگ کالونی میں جا گرا۔ حادثے میں 12 افراد ہلاک ہوئے جن میں سے 8 افراد طیارے میں سوار تھے، جو کہ سب کے سب لقمہ اجل بن گئے جب کہ چار افراد اس جہاز کے زیرِ تعمیر کالونی میں گرنے کے وقت اس کی زد میں آئے۔ اس کالونی کے کئی گھروں کو اس حادثے میں آگ بھی لگ گئی۔ اس طیارے میں 7 یوکرینی اور ایک روسی شہری ہلاک ہوئے جب کہ کالونی میں مرنے والے چاروں افراد پاکستانی شہریت رکھتے تھے۔

20 اپریل 2012

20 اپریل 2012 کو نجی کمپنی بھوجا ایئر کی ایک فلائٹ جسے کراچی سے اسلام آباد آنا تھا، اسلام آباد میں لینڈنگ سے قبل خراب موسم کے باعث ایئر پورٹ سے قریب ساڑھے پانچ کلومیٹر پہلے گر کر تباہ ہو گئی۔ اس وقت اسلام آباد میں شدید آندھی اور بارش تھی اور ایسے میں طیارہ بے قابو ہو کر راولپنڈی کے حسین آباد گاؤں کے قریب گر کر تباہ ہو گیا۔ اس طیارے میں 127 لوگ سوار تھے۔ یہ سب کے سب جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔

8 مئی 2015

8 مئی 2015 کو ایک پاکستانی ملٹری ہیلی کاپٹر گلگت کی وادی نلتر میں گر کر تباہ ہو گیا۔ اس حادثے میں ناروے اور فلپائن کے پاکستان میں سفرا اور انڈونیشیا اور ملائشیا کے سفرا کی بیگمات سوار تھیں۔ ان کے علاوہ تین crew member بھی انتقال کر گئے۔ اس حادثے میں کل 8 لوگ ہلاک ہوئے۔ یہ تمام لوگ وادی نلتر میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے Diplomatic Corps کی خدمت میں ایک ظہرانے میں شرکت کے لئے جا رہے تھے۔ نواز شریف نے بھی اس روز اس ظہرانے کے لئے جانا تھا جب کہ اس سے قبل 32 غیر ملکی سفارتکار اور 25 پاکستانی شہریوں کو اس ظہرانے کے لئے وادی نلتر پہنچایا جا چکا تھا۔

7 دسمبر 2016

7 دسمبر 2016 کو چترال سے اسلام آباد آنے والی PIA Flight 661 حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہو گئی۔ اس حادثے میں مشہور پاکستانی گلوکار اور بعد ازاں نعت خواں جنید جمشید بھی انتقال کر گئے تھے۔ ان کے علاوہ ضلع چترال کے ڈپٹی کمشنر بھی اس حادثے میں ہلاک ہوئے۔ اس حادثے میں جہاز میں سوار 47 کے 47 افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ مرنے والوں میں ایک آسٹریائی، ایک چینی، ایک جنوبی کوریائی جب کہ 44 پاکستانی شہری شامل تھے۔ اس حادثے کے بعد PIA پر شدید تنقید کی گئی۔ موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے مطالبہ کیا کہ PIA کے چیئرمین استعفا دیں۔ حادثے کے چھ روز بعد چیئرمین اعظم سیگل نے استعفا دے دیا جو کہ ان کے بقول ذاتی وجوہات کی بنا پر تھا لیکن میڈیا رپورٹس کے مطابق ان پر استعفے کے لئے حکومتی دباؤ ڈالا گیا تھا۔

22 مئی 2020

تازہ ترین حادثہ 22 مئی 2020 کو پیش آیا جب لاہور سے کراچی جانے والی PIA کی Airbus A320 پرواز کراچی میں گر کر تباہ ہو گئی۔ تفصیلات کے مطابق طیارے نے لینڈنگ کی کوشش کی لیکن اس وقت یہ لینڈنگ نہ کر سکا اور دوبارہ فضا میں بلند ہوا۔ تاہم، دوبارہ اوپر جاتے ہوئے جہاز کے دونوں انجن ناکارہ ہو گئے اور جہاز تیزی سے نیچے کی طرف آنے لگا۔ سول ایوی ایشن کی ایک ریکارڈنگ سامنے آئی ہے جس کے مطابق پائلٹ اور ایئر ٹریفک کنٹرول کے درمیان آخری بات چیت میں پائلٹ نے بتایا کہ We have lost both engines یعنی ہمارے دونوں انجن خراب ہو چکے ہیں۔ جس کے بعد اس نے may-day کی کال دی۔ پائلٹ کو ٹریفک کنٹرول کی جانب سے بتایا گیا کہ دونوں رن وے اس کے لئے خالی ہیں۔ تاہم، یہ طیارہ ملیر کینٹ کے قریب عمارتوں سے ٹکرا کر زمین پر آ گرا۔ حادثے میں 97 افراد جاں بحق ہو گئے جب کہ صرف دو زندہ بچے۔ معجزاتی طور پر زندہ بچ جانے والوں میں بنک آف پنجاب کے صدر ظفر مسعود بھی شامل ہیں۔ جب کہ حادثے میں انتقال کر جانے والوں میں پنجاب اربن یونٹ کے سربراہ خالد شیردل اور معروف ماڈل زارا عابد بھی شامل تھے۔