لاہور ہائیکورٹ نے اینکر عمران ریاض خان کی چار روزہ حفاظتی ضمانت منظور کرتے ہوئے پولیس کو گرفتار نہ کرنے کا حکم دیدیا ہے۔ اس کے علاوہ عدالت نے عمران ریاض کو شامل تفتیش ہونے کی بھی ہدایت کر دی ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے کیس کی سماعت کی۔ عدالت میں دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ عمران ریاض کے خلاف ملک کے مخلتف شہروں میں مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ وہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے متعلقہ عدالتوں میں پیش ہونا چاہتے ہیں۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ خدشہ ہے کہ پولیس مجھے گرفتار کر لے گی۔ لاہور ہائیکورٹ حفاظتی ضمانت منظور کر کے پولیس کو گرفتاری سے روکے۔
خیال رہے کہ صحافی اور یوٹیوبر عمران ریاض خان، سمیع ابراہیم، ارشد شریف اور صابر شاکر پر مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ عمران ریاض کیخلاف ضلع ٹھٹھہ میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ مقدمے میں نفرت انگیز گفتگو کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
ادھر ارشد شریف اور صابر شاکر کیخلاف 8 مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ صحافی سمیع ابراہیم کیخلاف چمن میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ان صحافیوں کیخلاف مقدمات کراچی، حیدر آباد، میرپور خاص، مٹیاری، دادو، کوئٹہ، چمن اور پشین میں درج کیے گئے۔ مقدمات میں دفعہ 131،153اور 505 شامل کی گئی ہیں۔ تمام دفعات ملک مخالف مہم چلانے اور اداروں کیخلاف ہرزہ سرائی کرنے کی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ نے عدالت کی اجازت کے بغیر صحافیوں کو گرفتار کرنے سے روک دیا
خیال رہے کہ اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ نے عدالت کی اجازت کے بغیر صحافیوں کی گرفتاری سے روک دیا تھا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ارشد شریف کیس میں ریمارکس دئیے کہ اس ملک میں غداری کا الزام لگانا بہت آسان ہے لیکن کوئی پاکستانی غدار نہیں ہے اور نہ ہی میر جعفر یا میر صادق ہے۔ میر جعفر اور میر صادق والی گردان آب ختم ہونی چاہیے۔
ارشد شریف کے وکیل ایڈووکیٹ فیصل چوہدری نے کہا کہ صحافیوں کو سندھ میں ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ صحافیوں کو تو پچھلے تین سال سے ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔
فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا کہ سمیع ابراہیم اور عمران ریاض کیخلاف بھی دس ایف آئی آر کاٹی گئی ہیں۔ عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ جب ادارے قانون کے مطابق اپنا کردار ادا کریں گے چیزیں خود ہی ٹھیک ہو جائیں گی، یہ عدالت صرف حفاظتی ضمانت منظور کرسکتی ہے۔
فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہم فرض کرلیں کہ یہ مقدمات وزیر خارجہ کے حکم پر ہورہے ہیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس طرح کے پرچے تو ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں، آپ نے کیا کردیا کہ جو آپ پر پرچے درج ہورہے ہیں۔
ارشد شریف نے عدالت میں اپنے بیان میں کہا کہ مجھے کہا جارہا ہے تمھیں سبق سکھائیں گے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ارشد صاحب، آپ نے کیا کیا ہے کہ پورے ملک میں پرچے درج ہو رہے ہیں؟
ارشد شریف نے کہا کہ مجھے کہا جارہا ہے تم ملک بھر میں کیسز بھگتوں گے، مجھے دھمکیاں مل رہی ہیں کہ پشین جاؤ گے، ملک بھر میں پھرو گے، نشان عبرت بنا دیں گے، انہوں نے مزید کہا کہ کہا جارہا ہے راستے میں تمھیں اغواء کرلیا جائے گا، میں اظہار رائے کی آزادی کے حقوق کے تحفظ اور انصاف کے لیے عدالت آیا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ دن مطیع اللہ جان صاحب نے بھی سیر کی تھی۔
فیصل چودھری نے کہا کہ مجھے بھی اٹھایا جا سکتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو اٹھانا اتنا آسان نہیں، آپ کو اپنا وزن کم کرنا پڑے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ایک آرڈر جاری کر دیتے ہیں کہ جب تک فیصل وزن کم نہ کرے تو اسے کوئی نہ اٹھائے،
وکیل ارشد شریف نے کہا کہ ارشد شریف کے خلاف سندھ ہی نہیں، بلوچستان میں بھی پرچے درج ہو گئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا جرنلسٹ باڈی کا کوئی نمائندہ عدالت موجود ہے؟ حسن ایوب رپورٹر ایف آئی اے نے کہا کہ وہ آج نہیں آئے مگر صحافتی تنظیمیں ہمارے ساتھ کھڑی ہیں،
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ یہاں موجود ہیں کورٹ رپورٹرز کی تنظیم کے صدر ان سے پوچھ لیتے ہیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر ثاقب بشیر کو روسٹرم پر بلا لیا
ثاقب بشیر نے کہا کہ ارشد شریف کو سیریس دھمکیاں مل رہی ہیں، اس طرح کے کیسز میر شکیل الرحمان پر بھی بنتے رہے ہیں، ملک بھر میں مقدمات درج ہو رہے ہیں، یہ کیسے ہر جگہ دفاع کے لیے پیش ہو سکتے ہیں ؟
وکیل نے کہا کہ ارشد شریف پر الزام ہے کہ انہوں نے مطیع اللہ جان کے پروگرام میں کوئی بات کی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس بیچارے کو پھر کیوں لاتے ہیں بیچ میں؟ یہ پہلے بھی سیر کر کے آئے ہیں۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ اس وقت تک آٹھ مقدمات درج ہو چکے ہیں، اگر کوئی درخواست آئے تو اس پر پھر انوسٹی گیشن ہونی چاہئے، عدالت یہ کر سکتی ہے کہ حفاظتی ضمانت دے اور وہ اس عرصہ میں متعلقہ کورٹ کے سامنے پیش ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ملک بھر میں کتنے ڈسٹرکٹس ہیں؟ ہم 106 ہفتے کی حفاظتی ضمانت دے دیں کہ ہر ضلع میں جائیں۔
وکیل نے کہا کہ ارشد شریف نے اس کورٹ کی حدود میں جو بات کی اس پر ملک بھر میں مقدمات درج ہو رہے ہیں، اگر اسلام آباد میں وی لاگ ہوا ہے تو تمام ایف آئی آرز بھی یہاں منگوا لی جائیں، اب بتائیں کہ ہمیں پشین میں کون تحفظ دے گا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ اس عدالت کا دائرہ اختیار نہیں کہ کسی اور ضلع میں درج مقدمہ پر کوئی فیصلہ کرے۔
فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا کہ حکم دیا جائے کہ ارشد شریف کو غیر قانونی طور پر گرفتار نہ کیا جائے، انہوں نے مزید کہا کہ اب ایمان حاضر مزاری کیخلاف دوسرے شہروں میں مقدمات درج کئے جارہے ہیں، دیگر شہروں میں درج ایف آئی آرز کو اسلام آباد ٹرانسفر کرنے ہا حکم دیا جائے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایسا کوئی قانون نہیں کہ مقدمہ یہاں ٹرانسفر کیا جا سکے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک جرنلسٹ ایموشنل نہیں ہو سکتا، اسے ذمہ داری اور احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اس عدالت کے دائرہ اختیار کو مد نظر رکھ کر تجویز کریں کہ عدالت کیا کرسکتی ہے، یہ مقدمات اس عدالت کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔ عدالت ان مقدمات کا میرٹ پر جائزہ نہیں لے سکتی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ اس ملک میں غداری کا الزام لگانا بہت آسان ہے لیکن کوئی پاکستانی غدار نہیں ہے اور نہ ہی میر جعفر یا میر صادق ہے۔ میر جعفر اور میر صادق والی گردان آب ختم ہونی چاہیئے۔
دوران سماعت معید پیر زادہ بھی عدالت میں آگئے، ان کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کو بھی تحفظ دیں، فون پر اطلاع ملی کہ معید پیر زادہ کے خلاف بھی مقدمہ درج ہوگیا تو وہ بھاگ کر اسلام آبادہائیکورٹ آگئے ہیں، ان کے خلاف بھی کاروائی روکیں۔