Get Alerts

سرکاری فیسٹیول جائز، پریس کلب میں احتجاج ناجائز؛ کنفیوژن کب جائے گی؟

مرشد! ادبی فیسٹیول اگر اس لیے کرواتے ہو کہ مشاعرہ ہو، تو شاعروں کو اٹھاتے کیوں ہو؟ یا اس لیے کہ مکالمہ ہو، تنقید ہو، سوالات ہوں، تو پریس کلبز کی تالہ بندی کیوں؟ مرشد! طاقت حل نہیں ہے؟ بلوچستان کے لوگ سوچنے، بولنے اور سوال کرنے والے ہیں؟ مانتے ہو، مگر دیر سے کیوں؟

سرکاری فیسٹیول جائز، پریس کلب میں احتجاج ناجائز؛ کنفیوژن کب جائے گی؟

بلوچستان کو طاقت کے زور پر چلانے والوں نے کہیں سے دو چار وائرل ویڈیوز دیکھی ہوں گی جن میں دکھایا گیا ہو گا کہ بلوچستان کے لوگ کتابیں بہت پڑھتے ہیں اور ادب سے جنون کی حد تک لگاؤ رکھتے ہیں، تو بس کروڑوں روپے لگا کر پچھلے دنوں آرٹ کونسل کراچی کے زیر اہتمام کوئٹہ میں پاکستان لٹریچر فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا۔ فیسٹیول کے مختلف سیشنز میں ایک سیشن وزیر اعلیٰ بلوچستان جناب سرفراز بگٹی کا نوجوانوں سے گفتگو کا بھی رکھوایا گیا تھا جس میں وزیر اعلیٰ صاحب کہتے ہیں کہ میں چار گھنٹے تک ان نوجوانوں کے جوابات دینے کے لیے حاضر ہوں۔ وزیر اعلیٰ صاحب یہ تاثر دے رہے تھے کہ اصل اقدامات یہی فیسٹیولز ہیں جہاں مکالمے کو فروغ ملتا ہے، جہاں نوجوان آ کر سوال کرتے ہیں اور کھل کر تنقید بھی کی جاتی ہے۔ وہ جو پہاڑوں پر ہیں وہ چند مٹھی بھر عناصر بلوچستان کی نمائندگی تھوڑی کرتے ہیں۔

وزیر اعلیٰ صاحب کی بات میں دم ہوتا اگر یہی اجازت (بغیر حکومت کے کروڑوں روپے خرچ کیے) سب کو ہوتی۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ اسی فیسٹیول کے فوراً بعد 19 مئی کو بلوچستان کے سب سے بڑے اور صوبائی دارالحکومت میں واقع پریس کلب میں منعقدہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے 'گوادر میں باڑ' کے موضوع پر ہونے والے سیمینار کو روکنے کے لیے پولیس نے پریس کلب کو ہی تالہ لگا دیا۔ صحافی اندر محصور رہے، سیمینار میں شرکت کرنے آئے لوگ پریس کلب کے باہر کھڑے گیٹ کھٹکھٹاتے رہے مگر پریس کلب کے منتظمین کو بتائے بغیر ہی پریس کلب پر سینہ زوری کے ساتھ تالہ لگا دیا گیا۔ جسے بعد میں عوامی مزاحمت اور احتجاج کے بعد کھول تو دیا گیا مگر اپنے چند دن پہلے خرچ کیے گئے کروڑوں روپوں، ادب و اظہار رائے کی آزادی کے اچھے تاثر کو خود ہی خاک میں ملا دیا۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

کوئٹہ پریس کلب کی تالہ بندی کے خلاف بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کی کال پر ملک بھر میں پریس کلبز کی طرف سے آزادی صحافت پر قدغن کے خلاف احتجاج ہو رہے ہیں۔ پریس کلبوں پر سیاہ پرچم لہرائے جا رہے ہیں۔ یہاں یہ سوال کہ وائرل ویڈیوز اور بہت دیر بعد سیکھنے کے بجائے اور کروڑوں روپے لگا کر ہی بلوچستان سے متعلق اچھا تاثر یا پورے ملک سے متعلق جمہوریت پسند ہونے کا تاثر ہی کیوں چاہیے؟ کوئٹہ پریس کلب میں سیمینار کرانے والے لوگ تو وہی تھے جو سال کے تقریباً 12 مہینے انہی سڑکوں، چوک چوراہوں یا پریس کلبز کے سامنے احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ بس بولتے ہی ہیں، تقریر کرتے ہیں، سوال کرتے ہیں، تنقید کرتے ہیں اور بس۔ نوجوانوں سے یہی سب کچھ کروانے کے لیے ہی تو کروڑوں روپے خرچ کروا کر پاکستان لٹریچر فیسٹیول کروایا گیا تھا۔

لیکن پتہ نہیں کیوں طاقت رکھنے والے دیر سے کیوں سوچتے ہیں؟ پہلے یہی ادارے بلوچستان میں کتابوں پر پابندی لگاتے ہیں، مکران کے کئی تعلیمی اداروں سے کتابوں کو زیر حراست لے کر جلاتے ہیں، ادبی پروگرامز پر پابندی عائد ہوتی ہے، تنقید کرنے والے ذہنوں اور سوال اٹھانے والوں کو اٹھا لیتے ہیں، شاعروں اور ادیبوں کو غائب کر دیتے ہیں۔ جب کچھ حاصل نہیں ہوتا تو کئی نسلیں گنوانے کے بعد خود کروڑوں روپے خرچ کر کے ادب کے نام پر سوال کرنے، مشاعرہ دیکھنے اور مکالمہ کے لیے فیسٹیولز کا انعقاد کرتے ہیں۔

اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اب پتہ نہیں کون لوگ خواجہ سراؤں کی کن ویڈیوز سے متاثر ہو کر بجائے اس کے کہ یہ سیکھتے مظلوم طبقہ بیزار ہو کر مزاحمت کیسے کرتا ہے، مگر یہ سیکھا گیا کہ کھسرے کسی پر حملہ کیسے کرتے ہیں۔ تو بس کھسروں کے بھیس میں حملے بھی ہونے لگے ہیں۔ لوگ یہ کہہ کر تھک گئے کہ سیاست میں مداخلت نہ کی جائے مگر اپنے من پسند سیاست دانوں کو ناصرف اقتدار تک لایا گیا بلکہ مخالفین کو بدنام کرنے کے لیے باقاعدہ لوگ صرف اسی لیے بھرتی کیے گئے تا کہ وہ ٹوئٹر پر ٹرینڈ چلائیں اور آج باوجود ٹوئٹر (موجودہ ایکس) پر پابندی کے کیا کیا ٹرینڈ چلائے جا رہے ہیں۔ پہلے بلوچستان کے لوگوں کو شکایت تھی کہ انہیں باقی پاکستان جیسا درجہ نہیں دیا جاتا، اب باقی پاکستان شکایت کرتا ہے کہ انہیں بلوچستان جیسا بنا دیا گیا ہے۔

مرشد! ادبی فیسٹیول اگر اس لیے کرواتے ہو کہ مشاعرہ ہو، تو شاعروں کو اٹھاتے کیوں ہو؟ یا اس لیے کہ مکالمہ ہو، تنقید ہو، سوالات ہوں، تو پریس کلبز کی تالہ بندی کیوں؟ مرشد! کتابیں پیاری ہیں ناں؟ آزادی صحافت ضروری ہے؟ جمہوریت پسند ہے؟ طاقت حل نہیں ہے؟ بلوچستان کے لوگ سوچنے، بولنےاور سوال کرنے والے ہیں؟ مانتے ہو، مگر دیر سے کیوں؟

لکھاری بلوچستان کے شہر گوادر سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے طالب علم ہیں۔