فرانس کو دعوتِ مبارزت دے کر اور اپنے جلسوں میں لبیک کے نعرے لگوا کر خود مولانا خادم رضوی نے داعئء اجل کو لبیک کہہ دیا۔ بیشک امت مسلمہ قیادت کے ایک عظیم بحران سے دوچار ہوگئی لیکن تاریخ کے اس اندوہناک موڑ پر وزیر اعظم عمران خان، آرمی چیف اور حتی کہ امریکی سینٹرل کمانڈ کی طرف سے آنے والے تعزیتی بیانات سے قوم کی امید ضرور بندھی ہوگی کہ پاکستان فرانس سے جلد یا بدیر نبرد آزما ہوگا۔ یہی وہ وقت ہے کہ ذرا اپنے مدمقابل حریف کی صلاحیت و قوت کا تخمینہ لگا لیا جائے۔
جیسا کہ اب بچے بچے کو علم ہے کہ ہماری ناکامی اور مسلسل غلامی کا اصل سبب معاشی میدان میں کمزوری ہے جبکہ ایک بڑی تعداد کو ان دعووں میں زرہ برابر شک نہیں کہ اخلاقی، دینی، تہذیبی، جنگی اور روحانی لحاظ سے ہمیں فرانس پر فوقیت حاصل ہے۔ چنانچہ ایک نظر پاکستان و فرانس کے اقتصادی اعداد و شمار پر ڈالتے ہیں۔
جی ڈی پی کا مطلب ہے مجموعی ملکی پیداوار Gross Domestic Product اس کی تعریف ہے کہ کسی ملک میں سال بھر میں جو اشیاء Goods اور خدمات Services وجود میں آتی ہیں۔ GDP پوری دنیا میں کسی بھی ملک کی معاشی حالت کا ایک اشارہ ہوتا ہے۔
یوروپی ملک فرانس دنیا کے سات امیر ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ اس کی مجموعی قومی پیداوار 2 اعشاریہ 7 ٹریلین ڈالر ہے۔ یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان میں سے ایک ہے یعنی ویٹو پاور رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ فرانس ہی وہ واحد یورپی طاقت تھا جو عراق پر امریکی فوج کشی کی راہ میں حائل تھا اور اس مسئلے کو مسئلہ فلسطین کے حل سے جوڑنے کا خواہاں بھی۔ بش جونیئر کی زیر صدارت اس وقت امریکہ کی پالیسی کو اس طرح بیان کیا جاتا تھا:" فرانس کو سزا دو، جرمنی کو نظر انداز کردو، روس کو معاف کردو"۔ Punish France, ignore Germany, forgive Russia
پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار فرانس کے مقابلے میں دس گنا چھوٹی ہے یعنی 278 بلین ڈالر ہے۔ عالمی فہرست میں پاکستانی معیشت کا مقام مصر اور بنگلہ دیش سے ذرا نیچے 44 واں ہے۔
جی ڈی پی کو ملک کی آبادی پر تقسیم کرنے سے فی کس جی ڈی پی Per capita GDP حاصل ہوجاتی ہے جو ہر پاکستانی کے لئے تیرہ سو ڈالر جبکہ ہر فرانسیسی باشندے کے لئے چالیس ہزار پانچ سو ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ پاکستان کی آبادی ماشااللہ 22 کروڑ جبکہ فرانس کی ساڑھے چھ کروڑ ہے۔ دولت مند ہونے کا ایک سیدھا سادہ نسخہ آبادی میں اضافہ روکنے سے ہوسکتا ہے جس کے لئے چینی ماڈل یا بنگلہ دیشی ماڈل اپنایا جاسکتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہمیں کوئی مولوی خاندانی منصوبہ بندی کے حق میں اپنا تیر بہدف زورِخطابت کا استعمال کرتا نہیں ملتا۔
سال 2019 میں پاکستان کی کل برآمدات کی مالیت 23 اعشاریہ 6 بلین ڈالر تھی جبکہ اسی عرصے میں کی جانے والی درآمدات کا حجم 60 بلین ڈالر تھا۔ اس طرح 36 بلین ڈالر کا سالانہ تجارتی خسارہ پیدا ہوا۔
اس کے مقابلے میں سال 2019ء میں فرانس کی مجموعی برآمدات 568 بلین ڈالرز جبکہ درآمدات 659 بلین ڈالرز تھیں۔ لہذا 90 بلین ڈالر کا خسارہ موجود تھا۔
اس تقابل کو ذرا مؤخر کرکے یہ دیکھ لیتے ہیں کہ کسی ملک کی معیشت کو کتنے شعبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
1۔ پرائمری یا ابتدائی سیکٹر Primary Sector
اس سے مراد پیداوار کا وہ حصہ ہے جو خام مال یا قدرتی وسائل سے حاصل ہو مثلا" زراعت، کان کنی، جنگلات اور تیل کی پیداوار سب ابتدائی نوعیت کی معاشی سرگرمیاں ہیں۔
2۔ سیکنڈری یا ثانوی سیکٹر Secondary Sectot
اس شعبہ کا تعلق مینوفیکچرنگ یعنی صناعی سے ہے۔ اس میں پرائمری سیکٹر سے خام مال لے کر اشیاء بنائی جاتی ہیں۔ کار مینوفیکچرنگ، تعمیراتی کمپنیاں، فوڈ پروڈکشن سب اسی سیکٹر کی مثالیں ہیں۔
3۔ ٹرشری یا بعد الثانوی سیکٹر Tertiary Sector
اس شعبہ کا مطلب ان خدمات سے ہے جو کوئی کاروبار اپنے صارفین کو فراہم کرے۔ طب، بینکنگ، سیلز، اینٹرٹینمینٹ، ہوٹل، ٹورزم انڈسٹری، صحت عامہ، تعلیم، انسانی و صنعتی فضلے کو ٹھکانے لگانا، ٹرانسپورٹ، کنسلٹنسی، قانونی خدمات وغیرہ سب بعد الثانوی اقتصادی خدمات ہیں۔
4۔ کواٹرنری یا رباعی سیکٹر۔ Quaternary Sector
یہ شعبہ کہیں کہیں خدمات سے خلط ملط ہوجاتا ہے اس میں ریسرچ اور ڈیولپمنٹ، انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی، خاص طور پر سائنسی میدان میں مزید ریسرچ اور تنوع Innovation شامل ہیں۔
کوئی ملک ترقی یافتہ ہے یا ترقی پذیر اس بات کا تعین کرنے کے لئے دیکھا جاتا ہے کہ اس کی معیشت کا کس قدر پرائمری شعبے پر منحصر ہے اور آبادی کا کتنا حصہ کس شعبہ میں سرگرم عمل ہے۔
پاکستان کی مجموعی قومی آمدنی کا 22 فیصد جبکہ فرانس کا محض ایک اعشاریہ چھ فیصد زراعت پر مبنی ہے۔ پاکستان میں برسرروزگار افراد کا تقریبا" 35 سے 40 فیصد ابتدائی سیکٹر سے متعلق ہیں جبکہ صرف 2 اعشاریہ 3 فیصد فرانسیسی اس شعبہ سے منسلک ہیں۔ اس کے باوجود فرانس یورپی یونین کے سب سے اہم زرعی ممالک میں سے ایک ہے اور پورے یورپ کی زرعی پیداوار کا ایک چوتھائی فراہم کرتا ہے۔
معیشت کا یہ پہلو کیا اہمیت رکھتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ 1970 تک چین کے جی ڈی پی کا کوئی 35 فیصد پرائمری سیکٹر سے اخذ ہورہا تھا جبکہ اب یہ 7 فیصد کے آس پاس ہے۔
جن ممالک میں پرائمری شعبہ پر انحصار زیادہ ہوتا ہے وہاں تعلیمی سہولیات بس اتنی ہی ترقی یافتہ ہوتی ہیں جتنی کسی فرد کو کاشتکاری، کان کنی، جنگلات بانی یا تیل نکالنے کے قابل بنائے کے لئے درکار ہوتی ہیں۔
معیشت کے دیگر سیکٹرز کے ترقی یافتہ ہونے کا مطلب یہ پوتا ہے کہ ایک ملک جو کچھ برآمد کرتا ہے اس کی قدر میں اضافہ Value added ہوچکی ہوتی ہے۔
ایک طائرانہ نظر ان دو ممالک کی برآمدات پر ڈالیں تو پاکستان دنیا کو ٹیکسٹائل، کاٹن اور چاول بیچ کر زرِ مبادلہ حاصل کرتا ہے جبکہ فرانس کی اہم ترین ایکسپورٹ میں ایروناٹیکل یعنی ہوائی جہاز سازی، کار مینوفیکچرنگ، فارماسیوٹیکل اور خدمات شامل ہیں۔
ایروناٹیکل کی صنعت میں فرانس امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ اس کی سب سے بڑی کمپنی کا نام ایئر بس ہے جو پوری دنیا کی ایئرلائنز کو ہوائی جہاز فراہم کرنے کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ حالیہ برسوں میں اس کمپنی نے چین اور بھارت میں بہت بڑے سودے کئے ہیں جبکہ برسہا برس سے ترکی سے بھی اس کی شراکت رہی ہے۔
فرانسیسی کار ساز کمپنیوں میں پیجو، رینالٹ اور سیٹرون سب سے بڑی ہیں۔ پیجو نے ترکی اور ایران کے اشتراک سے کارخانے ان ملکوں میں لگائے ہوئے ہیں۔ ایران میں خود رو کے نام سے قائم کارخانے سے بنی کاریں وسطی ایشیا اور مشرق وسطی میں برآمد کی جاتی ہہں۔ اسی طرح رینالٹ اور سیٹرون کے پیداواری یونٹس بھی کئی مسلم ممالک میں قائم ہیں اور وہاں کی معیشت کو سہارا دے رہے ہیں۔
فرانس کی تیسری اہم برآمد فارماسیوٹیکل مصنوعات ہیں۔ سنوفی Sanofi فرانس کی سب سے بڑی فارما کمپنی ہے جو دنیا کی دس بڑی کمپنیوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ ویکسین سازی کے میدان میں صف اول کی کمپنی ہے جو فلو، پولیو اور بچوں کی ویکسین دنیا بھر میں سب سے زیادہ فروخت کرتی ہے، کینسر کے علاج کی کئی ادویات اسی کمپنی کی کاپی رائٹ مصنوعات ہیں۔ مشہور عالم خون پتلا کرنے والی دوا کلوپی ڈوگریل Clopidogrel بھی اسی کی پروڈکٹ ہے جو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی لازمی ادویات میں شامل ہے۔ یاد رہے کہ عظیم مائیکروبیالوجسٹ لوئی پاسچر جن کے سر ویکسین ایجاد کرنے کا سہرا بندھا ہے اور جنہیں کروڑہا انسانوں کی جان بچانے کا اعزاز جاتا ہے سرزمین فرانس کے سپوت تھے جبکہ ایسپرین جیسی معرکتہ الآرا دوا بھی ایک فرانسیسی ایجاد ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ پوری دنیا میں اس وقت افغانستان کے علاوہ صرف پاکستان ہی ایسا ملک پے جہاں پولیو کا خاتمہ نہیں ہوسکا اور پولیو ورکرز کو جان سے بھی مارا گیا ہے۔
مندرجہ بالا مضمون کا مقصد مغربی ممالک کی تعریف و توصیف کرنا نہیں بلکہ ایک عام قاری تک یہ معلومات پہنچانا ہے کہ ملکوں کی غربت اور امارت کا تجزیہ کرنا کتنا آسان ہے۔ معاشی میدان میں ترقی کے بغیر سیاسی خودمختاری محض واہمہ ہے۔ معیشت کے ٹرشری اور کواٹرنری سیکٹر کے پھیلاؤ کے لئے جس طرح کی تعلیم اور جیسے روایت شکن ازہان چاہئے ہوتے ہیں وہ ایک ایسے معاشرے میں پروان نہیں چڑھ سکتے جس میں آزادی افکار پر ہزار طرح کی قدغن ہوں