یورپی یونین کی پارلیمنٹ کی جانب سے برطانیہ کو اتحاد سے علیحدہ کرنے کی حتمی منظوری کے بعد برطانیہ تقریباً نصف صدی بعد یورپی یونین سے الگ ہو گیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ اس اتحاد سے مقامی وقت کے مطابق رات 11 بجے الگ ہوا جبکہ اس موقع پر خواتین اور بچوں سمیت لوگوں کی بڑی تعداد پارلیمنٹ اسکوائر کے سامنے موجود تھی۔
دوسری جانب برطانوی وزیراعظم کی رہائش گاہ پر روشن کی گئی گھڑی نے بھی یورپی یونین سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی برطانیہ میں اہم عمارتیں برطانوی پرچم کے رنگ میں رنگ گئیں، بیلجیم میں برطانوی سفارتخانے سے یورپی یونین کا پرچم اتار دیا گیا جبکہ برسلز سے یونین جیک بھی ہٹا دیا گیا۔
ادھر بریگزٹ پر عمل سے کچھ گھنٹے پہلے برطانوی کابینہ کا علامتی اجلاس ہوا۔ اس دوران برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے بریگزٹ کو زندگی کی سب سے بڑی خوشی اور حقیقی قومی تبدیلی قرار دیا۔ جہاں برطانیہ کی علیحدگی ایک تاریخی لمحہ ہے وہیں بریگزٹ کے پہلے مرحلے کے اختتام پر برطانوی عوام کو زیادہ تبدیلیاں نظر نہیں آئیں گی کیونکہ برطانیہ اور یورپی یونین نے اہم معاملات مکمل کرنے کے لیے 11 ماہ کا وقت دیا ہے اور دسمبر 2020 تک برطانیہ میں یورپی یونین کے قوانین ہی لاگو ہوں گے۔
دوسری جانب فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے بریگزٹ کو تاریخی انتباہ قرار دیا اور کہا کہ یورپی اتحاد کو اب خود کو بہتر بنانا چاہیے۔ ٹیلی وژن پر خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ مایوس کن دن ہے، اپنے غم کو چھپانا نہیں چاہتے تاہم یہ وہی دن ہے جس سے اب ہم مختلف کام کر سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ متحد یورپ کی یورپی شہریوں کو پہلے سے زیادہ ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے مفادات کا دفاع کرسکیں۔
یاد رہے کہ برطانوی دارالعوام نے 10 جنوری کو بریگزٹ معاہدے کی منظوری دی تھی جس کے تحت برطانیہ 31 جنوری کو یورپی یونین سے الگ ہونے کے امکانات واضح ہو گئے تھے۔ دارالعوام میں رائے شماری کے دوران بریگزٹ معاہدے کی حمایت میں 330 اور مخالفت میں 231 ووٹ ڈالے گئے۔ بعد ازاں دارالامرا سے 23 جنوری کو بل منظور ہوا تھا اور اسی روز ملکہ ایلزبیتھ نے بل پر دستخط کر دیے تھے جو قانون بن گیا تھا جس کے بعد برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی میں حائل تمام رکاوٹیں ختم ہوگئی تھیں۔