جب ہاسٹل سے واپس گھر پہنچا، تو امی کسی عورت سے باتیں کر رہی تھیں۔ میرا کمرا بھی خلاف توقع اتنا صاف نہیں تھا، جب وہ عورت چلی گئی تو امی نے مجھے بتایا کہ یہ نئی صفائی والی تھی۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا جو پہلے کام کرتی تھی، وہ کام چھوڑ گئی ہے۔
جب انہوں نے مجھے وجہ بتائی تو سننے کے بعد میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ وجہ یہ تھی کہ:
"ہمارے گھر میں جو کام کرتی تھی، اس کا شوہر کوئی خاص کام کرتا نہیں تھا، گھر چلانے کے لیے وہ اس کی اجازت سے لوگوں کے گھر کام کرتی تھی، اس کا شوہر اس پر بلاوجہ تشدد کرتا تھا۔ اس کی ایک بیٹی بھی تھی اور بیٹی پیدا کرنے کی وجہ سے بھی وہ اپنی بیوی کو مزید تشدد کا نشانہ بناتا تھا۔ اب وہ پھر حاملہ تھی، اس کی صحت اب مزید کام کرنے کی اجازت نہیں دیتی تھی، اسی لیے اس نے کام کرنے سے معذرت کر لی تھی"
اس واقعہ کے دو پہلو نہایت ہی افسوسناک ہیں۔ پہلا پہلو یہ کہ اکیسویں صدی میں بھی ہمارے معاشرے میں بیٹی کی پیدائش کو معیوب سمجھا جاتا ہے، دوسرا پہلو یہ کہ ہمارے ہاں عورت ذات ابھی بھی گھریلو تشدد کا شکار ہے۔
زمانہ جاہلیت میں بیٹی کی پیدائش کو باعث ندامت سمجھا جاتا تھا، بیٹیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا۔ اسلام نے آ کر اس جاہلانہ عمل کو مکمل طور پر رد کیا۔ لیکن، اسلام کے چودہ سو سال بعد بھی ہم اس عمل کی مکمّل طور پر نفی نہیں کر پائے۔ ہمارے معاشرے میں آج بھی بیٹیاں بوجھ ہیں، ان کی پیدائش کو باعث شرمندگی سمجھا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا۔ بیٹا اور بیٹی کے درمیان فرق تاعمر جاری رہتا ہے۔ لیکن، بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ بیٹی کی پیدائش کو عورت کی غلطی سمجھا جاتا ہے۔ عورت بیٹے کو جنم دے تو وہ عورت نہایت اچھی، لیکن اگر وہی عورت بیٹی کو جنم دے تو یہ اس کا جرم قرار دیا جاتا ہے۔ بیٹی کی پیدائش پر، سزا بیٹی کے ساتھ ساتھ ماں کو بھی ملتی ہے۔ کھبی کھبار بیٹی کی پیدائش طلاق کا باعث بھی بن جاتی ہے۔
اس واقعہ کا دوسرا افسوسناک پہلو، عورت پر گھریلو تشدد ہے۔ کہیں نا کہیں عورت گھریلو تشدد کا شکار ہے۔ اس تشدد کا شکار عورتیں زیادہ تر مڈل کلاس یا لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہیں، جہاں پر عقل و شعور کی شدید کمی ہے۔ یہ وہ کلاس ہے جہاں مرد عورت کو صرف اپنا ملازم سمجھتے ہیں، جو بس ہر حکم بجا لائے اور ان کی ہاں میں ہاں ملائے۔ اگر عورت نے کھبی انکار یا ناں کر دی تو یہ مرد حضرات عورت پر تشدد کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔
اس ترقی یافتہ دور میں بھی ہمارے معاشرے کی عورت تشدد کا شکار کیوں ہے؟ کیوں اس پر اپنی مرضی مسلط کی جاتی ہے؟ اس پر ظلم کے پہاڑ کیوں توڑے جاتے ہیں؟ بیٹی کی پیدائش کو کیوں معیوب سمجھا جاتا ہے؟ مجھے آج تک ان سوالات کے جواب نہیں ملے۔
میرے خیال میں اس کی تین وجوہات ہیں۔
پہلی وجہ تعلیم کی کمی اور شعور کا فقدان ہے۔ اپر سوسائٹی میں (جہاں تعلیم یافتہ لوگ زیادہ ہوتے ہیں) ایسے واقعات نسبتاَ کم پیش آتے ہیں۔ لیکن، جیسے ہی لوئر سوسائٹی (جہاں نسبتا لوگ کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں) میں آتے ہیں ایسے واقعات کی تعداد میں اچھا خاصا اضافہ ہو جاتا ہے۔
دوسری وجہ مہنگائی، غربت اور بیروزگاری بھی ہے۔ جب مرد کو کام نہیں ملے گا، گھر میں فاقے ہوں گے، تو اس کا سارا غصہ اپنی بیوی پر ہی نکلتا ہے۔
تیسری اور سب سے اہم وجہ ہے "عورت بحثیت غلام"، زیادہ تر مرد اپنی بیویوں کو اپنے ماتحت رکھنا چاہتے ہیں۔ ان پر افسروں کی طرح حکم چلانا چاہتے ہیں، ان سے بلاتعطل خدمات چاہتے ہیں۔ بدلے میں یہ اسے کچھ دینا بھی نہیں چاہتے، بس آپ نے نکاح کیا، آپ کو ایک ملازمہ مل گئی، جو آپ کا ہر حکم مانے گی۔ انکار کی صورت میں وہ تشدد کرتے ہیں۔ یہ وجہ سب سے زیادہ خطرناک ہے۔
ہمارے کالج کے ماہر نفسیات کے بقول، گھریلو تشدد میں صرف جسمانی ایذا نہیں آتا۔ ہر وہ عمل گھریلو تشدد میں آئے گا جو عورت کو جسمانی، نفسیاتی طور پر متاثر کرے، اسکے inner peace کو خراب کرے۔
ہمارے معاشرے میں ایک اور خطرناک ٹرینڈ عام ہو رہا ہے۔ اس ٹرینڈ کے مطابق، ہر خاندان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ پڑھی لکھی، ملازمت پیشہ بہو لے کر آئے۔ خود کا بیٹا چاہے کوئی کام نا کرتا ہو۔ ہر مہینے کے بعد، اس بیچاری سے اس کی تنخواہ لے لی جاتی ہے، اگر وہ انکار کرے تو اس پر تشدد کیا جاتا ہے۔ اس رجحان کا سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بہن، بیٹی کو اس کے سسرال والے کچھ نا کہیں، اس پر کوئی زور زبردستی نا کریں، لیکن ہم خود دوسروں کی بہنوں، بیٹوں کو وہ عزت دینا ضروری نہیں سمجھتے، جو ہم اپنی بیٹیوں، بہنوں کے لئے توقع کرتے ہیں۔ ہمیں اس خوفناک ٹرینڈ کی حوصلہ شکنی کرنا ہو گی۔
پچھلی حکومت نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین پر گھریلو تشدد کے خلاف بل بھی پیش کیے، نئے قوانین بھی متعارف کروائے گئے، لیکن صورتحال میں کوئی خاطر خواہ کمی دیکھنے کو نہیں ملی۔
وطن عزیز میں آج بھی زیادہ تر عورتیں، گھریلو تشدد کا کسی نا کسی شکل میں شکار ہیں۔ آج بھی بیٹی کی پیدائش کو عورت کی غلطی خیال کیا جاتا ہے۔ آج بھی عورت کو کم تر خیال کیا جاتا ہے۔
ہماری جب نفسیات کی کلاس ہو رہی تھی اور ہمارا موضوع گھریلو تشدد تھا تو میں نے سر سے سوال پوچھا تھا کہ سر! جب عورت پر تشدد ہوتا ہے، وہ کیوں چپ چاپ سہتی رہتی ہے؟ وہ ایسے مرد کا گھر چھوڑ کیوں نہیں دیتی؟ وہ علیحدہ نیا گھر کیوں نہیں لے لیتی؟ تو سر کا دیا گیا جواب آج بھی مجھے یاد ہے، جواب یہ تھا کہ:
"بیٹا، اتنا آسان نہیں ہے، ہمارا معاشرہ عورت کو اتنا آزاد نا ہی کر سکتا ہے اور نا ہی دیکھ سکتا ہے"
اب سارے معاملے کا حل کیا ہے؟ قانون تو موجود ہے، لیکن اس پر عمل درآمد کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ حکومت اس قانون پر عملدرآمد کروانے کے لئے سنجیدہ بھی نہیں۔ اس کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے "قانون پر زبردستی عمل درآمد کروانا"۔ صرف قانون بنا دینے سے اب کام نہیں چلے گا۔ اب عملی طور پر کام کرنے کا وقت آ گیا ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ ضلعی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دے جو اس قانون پر مکمّل عمل درآمد کروائیں۔ جو مرد بھی عورت پر تشدد کرے، اسے کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔
مگر صرف سزا دینا کافی نہیں ہو گا، خواتین کو بھی اپنے حق کے لئے آواز بلند کرنا ہو گی۔ انہیں خاموشی توڑنا ہو گی، اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف اٹھنا ہو گا۔ اپنے حقوق کے لئے جنگ لڑنی ہو گی۔ ان سب کے ساتھ ساتھ، ہمیں بحثیت قوم، اپنے رویے بدلنے ہوں گے۔ ہمیں عورت کو اس کے جائز حقوق دینے ہوں گے۔ عورت کو حقیر جاننے والے کنسپٹ کو ختم کرنا ہو گا۔ ان کو ان کے فیصلے کرنے کی اجازت دینی ہو گی۔ ہمیں بیٹیوں کو بھی اتنی ہی محبت دینی ہو گی، جتنی ہم اپنے بیٹوں کو دیتے ہیں۔
عورت اور مرد ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ گاڑی کھبی بھی ایک پہیے پر نہیں چلے گی۔ دونوں پہیے برابر کام کریں گے تو گاڑی ٹھیک چلتی رہے گی۔ لیکن، جب ایک پہیہ ہی من مانی کرے گا تو گاڑی ٹھیک نہیں چلے گی اور حادثات کے خطرات بڑھ جائیں گے۔
بیٹیاں تو اللہ کی رحمت ہوتی ہیں۔ خدار، اپنی بیٹیوں اور بیویوں کو حقیر اور کم تر مت جانیں۔ ان کے ساتھ صلہ رحمی کے ساتھ پیش آئیں۔ اگر آپ میں محبت کرنے اور دینے کی ہمت نہیں، تو نا کریں لیکن کم از کم اپنی مردانگی دکھانے کے لئے ان پر تشدد ہرگز مت کریں۔
مضمون نگار ڈاکٹر ہیں اور سر گنگارام ہسپتال لاہور میں آرتھوپیڈک سرجری کی ٹریننگ کر رہے ہیں۔