شہباز شریف کی ن لیگ پر گرفت مضبوط ہونے لگی

شہباز شریف کی ن لیگ پر گرفت مضبوط ہونے لگی
شہباز شریف بتدریج مسلم لیگ نواز پر اپنی گرفت مضبوط کرتے چلے جا رہے ہیں اور انہوں نے نواز شریف کو قائل کرنے کے لئے تازہ ترین ہتھیار اپنی پارٹی میں موجود الیکٹ ایبلز کو بنایا ہے جو کہ اب اطلاعات کے مطابق نواز شریف سے ملاقات کے لئے لندن یاترا کے لئے تیار ہیں۔ اس سے قبل مسلم لیگ ن کا ایک اور سینیئر اراکین کا وفد بھی لندن جانے کے لئے اس وقت اپنے ناموں کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکلوانے کے لئے درخواستیں جمع کروا چکا ہے۔ ان دونوں وفود کا لندن جانے کا مقصد ایک ہی ہے۔ نواز شریف کو قائل کرنا کہ وہ شہباز شریف کے بیانیے یا نظریے کو تسلیم کرتے ہوئے فوج کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کریں اور اگلے انتخابات میں 'شفاف الیکشن' کی راہ ہموار کریں وگرنہ ایک بار پھر بڑی سطح پر دھاندلی کی جائے گی اور اس کے لئے تمام تر حربے استعمال کرنے کی تیاریاں پہلے ہی زوروں پر ہیں۔ آیا نواز شریف کو قائل کرنے میں یہ وفود کامیاب ہو پائیں گے یا نہیں، اس پر کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن حالیہ کنٹونمنٹ بورڈ انتخابات میں مسلم لیگ ن کی پنجاب میں واضح فتح کے بعد پارٹی کے اندر مفاہمتی گروپ کو تقویت ملی ہے۔

اس حوالے سے مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنماؤں خواجہ سعد رفیق، حنیف عباسی اور خواجہ آصف کی کنٹونمنٹ بورڈ انتخابات میں کارکردگی نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اخباری رپورٹس کے مطابق لاہور کے کنٹونمنٹ انتخابات کہ جہاں 2015 میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہوتے ہوئے بھی تحریکِ انصاف نے حالیہ انتخابات کے مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھائی تھی، یہاں خواجہ سعد رفیق نے پارٹی کے 2017 سے چلے آ رہے نعرے 'ووٹ کو عزت دو' کی جگہ 'کام کو عزت دو' کے نعرے کو پارٹی کے پوسٹرز پر استعمال کیا تو اس پر پارٹی قائد نواز شریف نے ان سے لندن سے فون کال پر گلہ کیا تھا۔ خواجہ سعد رفیق نے انہیں کہا کہ آپ الیکشن کے نتائج دیکھیے گا۔ اور جیسا کہ انہوں نے دعویٰ کیا تھا، مسلم لیگ ن نے لاہور کنٹونمنٹ بورڈ انتخابات میں بھاری مارجن سے فتح حاصل کی۔ کچھ ایسے ہی حالات سیالکوٹ کے بھی رہے اور راولپنڈی جہاں تحریکِ انصاف نے 2018 کے انتخابات میں سوئیپ کیا تھا، یہاں بھی مسلم لیگ ن نے واضح برتری حاصل کرتے ہوئے حکومتی جماعت کو پنجاب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بلدیاتی الیکشنز میں اپ سیٹ شکست دے کر نئی تاریخ رقم کی۔

یہ ساری ٹیم شہباز شریف کی تھی۔ سینیئر تجزیہ کار مزمل سہروردی کا کہنا ہے کہ شہباز شریف نے نواز شریف کو خاموشی اختیار کرنے کو کہا تھا اور انہیں یقین دلایا تھا کہ اگر وہ کچھ عرصے کے لئے تقاریر اور 'ووٹ کو عزت دو' کے بیانیے کو چھوڑتے ہوئے صرف اپنے کام کی بنیاد پر الیکشنز لڑیں تو اسٹیبلشمنٹ میں ن لیگ مخالف سوچ کمزور ہوگی اور انہیں شفاف انتخابات ملنے کی امید ہوگی وگرنہ انتخابات میں ایک بار پھر نتائج تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس حوالے سے کنٹونمنٹ انتخابات کو نواز شریف کو بطور ٹوکن دکھانے کی بات بھی کی گئی تھی۔

شہباز شریف کا دوسرا آلہ یعنی electables کے بارے میں بھی یہی اطلاعات ہیں کہ وہ نواز شریف کو عام انتخابات میں خدمت کو عزت دو کا نعرہ اپنانے پر قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔ شہباز شریف نے ہی انہیں برطانیہ جا کر نواز شریف کے سامنے یہ کیس رکھنے پر قائل کیا ہے۔

دوسری جانب پارٹی کے اندر مخالف کیمپ کو قابو میں لانے کے لئے بھی شہباز شریف گروپ کی کاوشوں کو کچھ حوصلہ ملا جب نواز شریف نے پارٹی کی سینیئر قیادت کے کہنے پر شیخوپورہ سے اپنے لاڈلے رکن میاں جاوید لطیف کو شو کاذ نوٹس بھی جاری کیا جنہوں نے سماء ٹی وی کے ساتھ ایک انٹرویو میں مفاہمتی گروپ کو 'اسائنمنٹ' پر کام کرنے والا کہا تھا اور خواجہ آصف سے متعلق ایک سوال پر واضح انداز میں ان سے اپنے اختلافات کو منظرِ عام پر لائے تھے۔ اس سلسلے میں اخباری اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ شہباز شریف ایک اور پارٹی کے سینیئر لیڈر کو بھی شو کاذ نوٹس کروانا چاہتے تھے لیکن اس سے نواز شریف نے فی الحال اجتناب کیا ہے۔ اگرچہ یہ پارٹی لیڈر کون ہے، اس حوالے سے کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا لیکن حالیہ دنوں میں شہباز شریف کے بیانات کی نفی سب سے زیادہ مرتبہ شاہد خاقان عباسی نے ہی کی ہے۔ اس ضمن میں خصوصی طور پر اس واقعے کو نظر انداز کرنا ناقابلِ فہم ہے کہ شہباز شریف کے کراچی میں ایک پریس کانفرنس میں دیے گئے بیان کو پہلے میڈیا میں غلط قوٹ کیا گیا۔ انہوں نے قومی حکومت سے متعلق کوئی بات نہیں کی تھی لیکن میڈیا میں خبریں چلائی گئیں کہ انہوں نے قومی حکومت کی تجویز دے دی اور بعد ازاں پارٹی کی جانب سے پارٹی صدر کے بیان کو ان کی ذاتی رائے قرار دیا گیا۔ اس واقعے کے فوراً بعد ہی شہباز شریف نے ملک احمد علی کو اپنا ترجمان مقرر کرتے ہوئے مریم اورنگزیب سے یہ اختیار لے لیا تھا۔ لیکن اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ شاہد خاقان عباسی نے اسی شام ٹی وی پر بیٹھ کر اس تجویز کو مسترد کیا جب کہ شہباز شریف کی جانب سے اس کا اظہار کیا ہی نہیں گیا تھا۔

جہاں ایک طرف پارٹی کے اندرونی محاذ پر شہباز شریف کیمپ کا پلڑا بھاری ہوتا چلا جا رہا ہے، وہیں اب رانا ثنااللہ سے واضح الفاظ میں کہلوا دیا گیا ہے کہ اسٹیبشلمنٹ سے مذاکرات مسلم لیگ نواز کرے گی اور کر رہی ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے ذریعے ہی انہیں یہ باور کروایا جا سکتا ہے کہ گذشتہ انتخابات میں جو دھاندلی کی گئی اسے دوبارہ نہ دہرایا جائے ورنہ اس بار عوام خود معاملات اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں۔ رانا ثنااللہ نے یہ ضرور کہا کہ شفاف انتخابات کے لئے ہوئے مذاکرات کو مفاہمت کے لفظ سے نہ جوڑا جائے لیکن یہ مفاہمتی بیانیہ اب سے ایک برس قبل مسلم لیگ نواز اپنانے کو تیار نہیں تھی۔

شہباز شریف پارلیمانی سطح پر بھی متحرک ہیں اور چیئرمین نیب کی مدت ملازمت اور انتخابی اصلاحات کے معاملے پر اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔ معاملات جس سمت میں جا رہے ہیں، لگتا ہے شہباز شریف جلد مسلم لیگ ن کی کمان مکمل طور پر سنبھال لیں گے۔ اس دوران مریم نواز کا کردار جماعت کے اندر موجود رہے گا، وہ لیکن جتنی تیزی سے پارٹی کا چہرہ بنی تھیں، اس کو کچھ عرصے کے لئے البتہ لگام ضرور ڈالی جائے گی۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.