معروف صحافی نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ میں عمران خان کے حمایتی بھی اب ان کی حمایت سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ وہ بھی یہ سوچنے پہ مجبور ہو گئے ہیں کہ خان صاحب جس طرح کے بندے ہیں اگر دوبارہ آ گئے تو نہ جانے کیا ہو جائے گا۔ عمران خان کے ایک ہی گرو ہیں اور وہ سب کو پتہ ہے کہ کون ہیں۔ وہی گرو ان کو اندر کی باتیں بھی بتاتا ہے، باہر کی بھی بتاتا ہے اور اسٹریٹجی بھی بنا کے دیتا ہے۔ اب ان کے گرو نے بھی ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مارنے شروع کر دیئے ہیں۔ ان کو اب گڑبڑ نظر آ رہی ہے اور وہ (ن) لیگ اور پی ڈی ایم کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں۔ وہ کہ رہے ہیں کہ مجھے بھی آزما کے دیکھ لیں، مجھ میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ عمران خان اور ان کے گرو کے بیچ دوریاں آ گئی ہیں۔ دونوں کو اس وقت یہ پریشانی ہے کہ کہیں شہباز شریف اپنی مرضی کا آرمی چیف نہ لگا لیں۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ عدم اعتماد کی تحریک کے وقت خان صاحب کے گرو ادھر ادھر ہو گئے تھے اور اسی وجہ سے ان سے یہ تحریک ہینڈل نہ ہو سکی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ عمران خان سے ناراض ہے جبکہ وہ شہباز شریف سے خوش ہیں اور وہ سوچ رہے ہیں کہ کیوں نہ شہباز شریف ہی کے ساتھ چلا جائے۔
نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ عمران خان ابھی تک ضد پر اڑے ہوئے ہیں کہ نیا آرمی چیف وہ لگائیں گے۔ انہیں اندازہ ہے کہ اگلے سال تک ان کی مقبولیت کم ہو جائے گی۔ اگر انہیں یہ ڈر نہ ہوتا تو وہ آرام سے بیٹھ جاتے اور الیکشن ہونے کا انتظار کرتے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ اب عمران خان سے خوفزدہ ہونا شروع ہو گئی ہے۔ اگر اس وقت وہ لانگ مارچ کی کال دے دیتے ہیں اور لانگ مارچ فیل ہو جاتا ہے تو پھر ان کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ان کی کریڈیبلٹی ختم ہو جائے گی۔
امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ امریکہ کے کوئی اختلافات تھے ہی نہیں۔ یہ ایشو تھا ہی نہیں بلکہ یہ عمران خان نے بنایا تھا۔ ایف سولہ والا کام جنرل باجوہ نے ہی کروایا ہے، شہباز شریف نے تھوڑا ہی کروایا ہے۔ فارن پالیسی اس وقت بھی جنرل باجوہ چلا رہے ہیں اور عمران خان نے جو نقصان پہنچایا ہے اسے ٹھیک کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کو اب پیغام دیا جا رہا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں واپس چلے جائیں۔ یہ معاملات تب ہی ٹھیک ہوں گے جب خان صاحب پارلیمنٹ میں چلے جائیں گے۔