اسد عمر یا عمران خان نہیں بلکہ مصنوعی سیاسی عمل ناکام ہوا ہے

اسد عمر یا عمران خان نہیں بلکہ مصنوعی سیاسی عمل ناکام ہوا ہے
سیاست کی حقیقتوں میں سے ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ یہاں پلک جھپکتے ہی بساط الٹ جایا کرتی ہے۔ چند ماہ قبل "مقتدر حلقوں" کی پیاری اور راج دلاری تحریک انصاف کے ساتھ بھی کچھ یہی ہوا ہے اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان دانستاً نوشتہ دیوار پڑھنے کے بجائے کبوتر کی مانند آنکھیں بند کر کے خود کو اس خوش فہمی میں مبتلا رکھے ہوئے ہیں کہ ’سب ٹھیک ہے‘ اور جو بھی ہو وہ اور مقتدر حلقے ’ایک صفحے‘ پر موجود ہیں۔

حال ہی میں اسد عمر کی بلی چڑھا کر اور کابینہ میں رد و بدل کر کے پرویز مشرف کی ساری کابینہ حکومت میں واپس لانے کے بعد عمران خان کا خیال ہے کہ وہ بچ جائیں گے۔ یہ خیال اس سے قبل کئی وزرائے اعظم کے ذہن میں آتا رہا اور وہ اپنے ساتھیوں کی بلی چڑھا کر سوچتے رہے کہ وہ بچ جائیں گے لیکن آخر میں ہونی ہو کر ہی رہی اور ان وزرائے اعظم کو بھی گھر جانا پڑ گیا۔

قصہ مختصر یوں ہے کہ پاکستان واپس پرویز مشرف کے دور میں پہنچ چکا ہے اور دگرگوں معاشی حالات رفتہ رفتہ مقتدر قوتوں کے بس سے بھی باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ سٹیٹ بنک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر ساڑھے چھ (6.5) ارب ڈالر رہ چکے ہیں۔ افراط زر اس وقت اس دہائی کی بلند ترین سطح کو چھو رہا ہے۔ ایسے میں جن قوتوں نے پنجاب کے عوامی مینڈیٹ پر ڈھاکہ مار کر یہ مصنوعی عمل تخلیق کیا تھا وہ شدید دباؤ کا شکار ہو چکی ہیں۔ آئی ایم ایف کو واشنگٹن سے پاکستان کو قرضے کی فراہمی کیلئے جن شرائط کا مطالبہ کرنے کو کہا گیا ہے وہ ایک طرح سے پاکستان کیلئے ناقابل قبول ہیں۔



پاکستان کو آئی ایم ایف کو چین کے ساتھ تمام معاہدوں کا بتانا ہو گا اور یہ ضمانت دینی ہو گی کہ آئی ایم ایف سے ملنے والا قرضہ چین کو قرضوں کی واپسی میں استعمال نہیں ہو گا۔ برگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ کو وزیر داخلہ بنا کر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس سے کلین چٹ ملنے کے امکانات کو بھی معدوم کر دیا ہے کیونکہ اعجاز شاہ شدت پسندوں کے ساتھ اپنے روابط کے باعث عالمی برادری میں کچھ اچھی ساکھ نہیں رکھتے۔

عبدالحفیظ شیخ کو مشیر خزانہ تعینات کر کے پرویز مشرف کی ساری ٹیم واپس لائی گئی ہے اور عمران خان کو اب ایک طرح سے مجبور کر دیا گیا ہے کہ وہ سر جھکا کر ڈکٹیشن لیتے جائیں۔ طاقت کی بساط پر سجی یہ بساط مقتدر قوتوں کی منشا کے مطابق نتائج دینے میں ناکام رہی ہے اور رفتہ رفتہ مقتدر قوتیں خود اس بساط پر اپنے ہی داؤ میں الجھتی جا رہی ہیں۔

اپوزیشن نے خاموش رہ کر اور عدالتوں میں مقدمات بھگتا کر اس حکومت کے خلاف احتجاج نہ کر کے تحریک انصاف یا مقتدر قوتوں کو کوئی بھی ایسا موقع فراہم نہیں کیا ہے جس کو استعمال کر کے تحریک انصاف یا مقتدر حلقے کوئی راہ فرار اختیار کر پاتے۔ عمران خان اس بساط پر ایک معمولی سا مہرہ تھے اور رہیں گے اور جلد ہی ان کی قربانی دے کر ناکامیوں کا ملبہ تحریک انصاف اور پارلیمانی نظام پر ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ جبکہ درحقیقت ملک کو بدترین معاشی و سیاسی بحران سے دوچار کرنے والی قوتیں ہمیشہ کی مانند دستانے اور نقاب پہنے ایک نئی بساط سجانے کی تیاری میں مصروف ہیں۔

انگریزی کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ "اگر مہرے کھیلنے سے انکار کر دیں تو شطرنج کی بساط بچھائی ہی نہیں جا سکتی"۔ پاکستان کی جمہوری قیادت کا فی الحال اس بات پر نکتہ نظر متفق ہے اور ان میں سے کوئی بھی اب مہرہ بننے کو تیار نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دانستاً صدارتی نظام کی بحث کا آغاز کیا گیا ہے حالانکہ ایوب خان کے صدارتی نظام سے لے کر مشرف کی صدارت تک پاکستان کو سیاسی، سماجی اور معاشی بحرانوں سے دوچار کروانے والا نظام یہی صدارتی نظام تھا۔ خیر اسد عمر کی ناکامی سے ایک بات تو طے ہو گئی اور وہ یہ ہے کہ اسحاق ڈار درست تھا اور اسے محض مقتدر قوتوں کو ان کے مطلوبہ وسائل بجٹ میں مختص نہ کرنے کے باعث عتاب کا نشانہ بنایا گیا۔

آٹھ سال تک قوم کو بیوقوف بنا کر اسد عمر نے فرضی اعداد و شمار پیش کیے اور جھوٹ پر مبنی بلند و بانگ دعوے کیے جن کو عملی میدان میں روپے کی قدر میں کمی کے ناکام فیصلے سے لے کر آئی ایم سے ناکام مذاکرات کا طوق گلے پر سجا کر معیشت کا ستیاناس کر کے چلتے بنے۔



حیرت اور تعجب اس بات پر ہے کہ اسد عمر دراصل وہی کر رہا تھا جو عمران خان اسے کہتا تھا۔ یہ محترم عمران خان کی ضد تھی کہ آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لینا بلکہ اپنے فین کلب سے چندہ اکھٹا کر کے اور سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کی مانند اپوزیشن اور بڑے بڑے کاروباری شخصیات پر مقدمات قائم کر کے انہیں قید و بند میں رکھ کر ان سے پیسہ نکلوا کر خزانے کو بھر دینا ہے۔

اب چونکہ نہ تو ریاستیں چندے اور خیرات پر چلا کرتی ہیں اور نہ ہی پاکستان میں سعودی عرب کی مانند بادشاہت کا نظام قائم ہے اس لئے کوئی بھی ذی شعور شخص ان اقدامات سے یہ توقع نہیں کر سکتا تھا کہ ان کے بل بوتے پر معیشت پنپنے پائے گی۔ اس لئے اسد عمر کی ناکامی دراصل عمران خان کی ناکامی ہے اور عمران خان کو کوئی بھی سیاسی ٹیم دے دی جائے وہ اپنی اس سوچ کے ساتھ ملک کو بحرانوں سے نہیں نکال پائیں گے۔

اگر عمران خان بیساکھی استعمال کر کے اور پنجاب کا مینڈیٹ چرا کر اقتدار میں نہ آتے تو انہیں وہ سیاسی حمایت مل سکتی تھی جس کی کمی کا وہ روز اوّل سے شکار ہیں۔ عمران خان نے جمہوریت کی عمارت میں نقب لگانے والوں کی کٹھ پتلی بن کے نہ صرف اپنی سیاسی ساکھ کو ختم کر ڈالا ہے بلکہ جمہوری نظام کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اب اگر مقتدر قوتیں کچھ عرصے بعد کوئی قومی حکومت قائم کرتی ہیں یا صدارتی نظام متعارف کراتی ہیں تو تاریخ عمران خان کو اکیسویں صدی کے اصغر خان کے طور پر یاد رکھے گی۔



اب مصنوعی سیاسی عمل معلومات اور ابلاغ کے اس جدید ترین دور میں زیادہ عرصے تک نہیں چل پائیں گے۔ اب بھلے ہی ون یونٹ بنایا جائے یا صدارتی نظام لایا جائے وقت کا ریلہ بہت آگے تک جا چکا ہے اور معلومات تک رسائی نے اب سادہ لوح افراد پر بھی یہ بھید منکشف کر دیا ہے کہ دراصل مسئلہ جمہوریت یا جمہوری نظام میں نہیں ہے بلکہ جمہوری نظام پر اپنی مرضی تھوپنے کا ہے۔

گذشتہ حکومت سے انا کی جنگ اور اختیارات چھیننے کی مقتدر قوتوں کی خواہش نے ملک کو جن بحرانوں سے دو چار کیا ہے، ان سے نکلنے کے لئے اب ایک طویل عرصہ درکار ہو گا جو کہ کسی بھی مصنوعی سیاسی عمل سے ہو کر نہیں گزرتا۔ عمران خان یا اسد عمر کی ناکامی جمہوری نظام کی ناکامی نہیں بلکہ مقتدر قوتوں کے مصنوعی سیاسی عمل کی ناکامی ہے۔ عوام کا مینڈیٹ چرا کر مشرف اگر سفاک ترین آمریت کے سہارے بھی زیادہ دیر نہیں ٹک پایا تو کوئی اور بھی نہیں ٹک پائے گا۔ اس بساط پر اب مقتدر قوتیں نئے مہرے سجا کر بساط کو طول تو دے سکتی ہیں اپنے لئے کچھ مزید وقت تو حاصل کر سکتی ہیں لیکن حسب منشا نتائج حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں آ سکتی ہیں۔

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔