احساس ٹیلی تھون ٹرانسمیشن کے موقع پر اس وقت ایک عجیب وغریب صورتحال دیکھنے کو ملی، جب صراط مستقیم کا راستہ بذریعہ حوریں متعارف کروانے والے مشہور عالم دین مولانا طارق جمیل نے میڈیا کو اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جھوٹا قرار دیا۔ میڈیا کے کم و بیش تمام بڑے جائے وقوعہ پر موجود تھے، جن کے سامنے یہ اشتعال انگیز انکشاف کرنا بلاشبہ اتنا ہی دل گردے کا کام تھا جتنا جگرا خان صاحب کی ’ایمانداری‘ کی توثیق کے لئے چاہیے ہوتا ہے۔
مولانا صاحب کے ان کلمات نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام دکھا دیا ہے۔ میڈیا انڈسٹری جو پہلے ہی دگرگوں حالت میں ہے، اس کے لئے یہ دن ہرگز خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں جب ایک نرم خو صلح پسند مولانا صاحب جو پیار پچکار کر کے لوگوں کو دین کی ترغیب دیتا ہے، نے اٹھ کر نہ صرف اس کے گریبان پر ہاتھ ڈالا بلکہ عزت بھی تار تار کر دی۔ بلاشبہ مولانا کے کئی پرستار ان کی اس کاوش پر تحسین کے ڈونگرے برسا رہے ہوں گے۔
اکبر الٰہ آبادی آج زندہ ہوتے تو یقینا آخرت میں مولانا صاحب سے حوریں مستعار کرنے کے لئے اپنا وزن ان کے دفاع میں کچھ یوں استعمال کرتے کہ:
ہنگامہ ہے کیوں برپا جو مولانا نے میڈیا کو جھوٹا کہا ہے
زیادہ سچ بھی تو نہیں بولا، خان کو بھی تو ایمانت دار کہا ہے
مولانا صاحب کی ایسی اشعال انگیزی کے بعد بہت سارے خدائی فوجدار اپنی اپنی لٹھ تھام کر بھاگی ہوئی ’عزت‘ کا بدلہ لینے کے لئے میدان میں نکل پڑے ہیں۔ ان میں بہت سارے مولانا صاحب کو آڑے ہاتھوں لے چکے ہیں جب کہ پیچھے رہ جانے بھی کسی مناسب وقت کے انتظار میں ہیں تاکہ حساب بے باک کر سکیں۔
خیر مولانا صاحب کی شخصیت کے رنگ برنگے پہلوؤں سے اختلافات اپنی جگہ پر، لیکن کیا ہمیں یہ تسلیم نہیں کرنا چاہیے کہ مولانا صاحب کی میڈیا کو جھوٹا کہنے والی بات میں کسی حد تک وزن ہے؟ کیا ملکی ناظرین کی نیوز چینلز مین دن بدن کم ہوتی دلچسپی کی کوئی اور وجہ ہو سکتی ہے؟ کیا ہم نہیں سمجھتے کہ سنسنی خیزی جو ہماری خبروں کا لازمی جز سمجھا جاتا ہے، اس کے لئے مبالغہ آرائی کے چار چاند لگائے جاتے ہیں؟ کیا حالات حاضرہ کے نام پر ہمارے اینکر حضرات ایسے پروگرام منعقد نہیں کرتے، جن میں ناظرین کی بصیرت میں اضافے کرنے کی بجائے انہیں ’بدصیرت‘ بننے کی ترغیب ملتی ہے؟ کیا ہماری خبروں کا یہ خاصہ نہیں کہ سوشل میڈیا میں چلتی کسی بھی افواہ کو بغیر کسی تحقیق کے سکرین پر بریکنگ نیوز کی صورت میں چلا دیتے ہیں؟
کیا ہمارے رپوٹرز ذرائع اور مبصرین کا نام استعمال کر کے ایسی خبروں کی ترسیل نہیں کرتے؟ کیا ٹاک شوز میں عوامی مسائل اور عوامی اشوز کی بجائے سیاسی بندر بانٹ کی اہمیت جتلانا دروغ گوئی نہیں؟ کیا ایسے چھاپے مار شوز جن میں میزبان آپ کو مصنوعی طور پر دوسروں کے خیال کرنے کی ادکاری کر کے دکھاتا ہے، فریب نہیں؟ مارننگ شوز کے نام پر بھڑکیلے لباس میں مبلوس خواتین جو زندگی کی رعنائیاں متعارف کرواتی ہیں وہ کتنی حقیقی ہیں؟ کچھ قلمکارجو مالی مفاد کی آڑ میں شخصیات کی خوبیوں پر زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں ان کو سچ کہا جا سکتا ہے؟
کہا جاتا ہے کہ اصلاح کی گنجائش نہ رہے تو قہر ٹوٹتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ میڈیا کے مالکان و ملازمین اپنی اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آنے والوں وقتوں میں میڈیا کی زبوں حالی پر ایسی کوئی رپورٹ جاری ہو جس پر صدر مملکت عارف علوی کا لغو جملہ بے ساختہ نکل جائے کہ میڈیا کا ریپ نہیں بلکہ گینگ ریپ کیا گیا ہے۔