علم کا رجائی تصور جو جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی پیدائش کا محرک بنا

علم کا رجائی تصور جو جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی پیدائش کا محرک بنا
(کارل پوپر کے لیکچر ' علم کے ذرائع اور جہل کے ذرائع' کے تیسرے اور چوتھے سیکشن کا ترجمہ)

III

نشاۃ ثانیہ کے دور میں حریت کی جس عظیم تحریک کا آغاز ہوا تھا اور وہ تحریکِ اصلاح اور مذہبی اور انقلابی جنگوں کے نشیب و فراز سے گزرتی ہوئی ان آزاد معاشروں تک پہنچی ہے جن میں انگریزی بولنے والے افراد آباد ہیں۔ ان تمام ادوار میں اس تحریک کومہمیز دینے والی ایک بے مثال علمیاتی رجائیت تھی: یہ انتہائی رجائی تصور کہ انسان صداقت کو ممیز کرنے اور علم حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

امکانِ علم کے اس جدید رجائی تصور کی تہہ میں یہ نظریہ کار فرما تھا کہ صداقت آشکارا ہوتی ہے۔ صداقت پردوں میں چھپ تو سکتی ہے لیکن یہ اپنے آپ کو منکشف بھی کر سکتی ہے اور اگر یہ اپنے آپ ظاہر نہ ہو تو ہم اسے آشکار کر سکتے ہیں۔ نقاب کشائی کرنا شاید سہل نہ ہو لیکن اگر ایک دفعہ صداقت بلاحجاب ہماری آنکھوں کے سامنے آجائے تو ہم یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس کا مشاہدہ کر سکیں، اسے خطا سے ممیز کر سکیں اور یہ جان سکیں کہ یہی صداقت ہے۔

جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی پیدائش کا جذبہ محرکہ یہی علمیاتی رجائیت تھی جس کے بڑے ترجمان بیکن اور ڈیکارٹ تھے۔ ان کی تعلیم تھی کہ حق کے معاملات میں کسی (خارجی) سند سے رجوع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ علم حاصل کرنے کے ذرائع انسان کی اپنی ذات میں موجود ہیں۔ یہ ذریعہ اس کی حسی ادراک کی صلاحیت ہو سکتی ہے جس کے ذریعے وہ فطرت کا گہرا مشاہدہ کر سکتا ہے یا یہ ذریعہ اس کا عقلی وجدان ہو سکتا ہے جس کی مدد سے وہ حق اور خطا میں امتیاز کر سکتا ہے اور ایسا تبھی ممکن ہوتا ہے جب وہ ہر اس تعلق کو قبول کرنے سے انکار کر دے جس کا واضح اور مشخص انداز میں عقل نے ادراک نہ کیا ہو۔

انسان علم حاصل کر سکتا ہے: چنانچہ وہ خود مختار ہو سکتا ہے۔ یہ فارمولا علمیاتی رجائیت اور لبرل ازم کے تصورات کے مابین تعلق کی وضاحت کرتا ہے۔

اس تعلق کے الٹ ایک دوسری نسبت بھی ہے۔ انسانی عقل کی طاقت اور صداقت کا ادراک کرنے کی انسانی صلاحیت پر عدم یقین لازمی طور پر انسان پر عدم اعتماد سے پیوست ہے۔ تاریخی اعتبار سے علمیاتی قنوطیت کا نظریہ انسان کی بداعمالی کے تصور سے منسلک ہے اور یہ مؤثر روایات کے نظام اور لائقِ اعتماد سند کی فصیل کا تقاضا کرتا ہے جو انسان کو اس کی اپنی حماقت اور کج روی کے اثرات سے پناہ فراہم کر سکے۔ (روسی ناول نگار دوستوئیفسکی کے ناول کراما زوف برادران میں محتسب اعلیٰ کی حکایت میں سند کے نظریہ کا بہت مؤثر سکیچ اور مقامِ سند پر فائز افراد پرعائد ہونے والی ذمے داری کی بڑی عمدہ تصویر پیش کی گئی ہے۔)

علمیاتی رجائیت اور قنوطیت میں تقابل اصلاً عقلیت پسندی اور علمیاتی روایت پرستی کے مابین تقابل جیسا ہی ہے۔ (میں عقلیت پسندی کی اصطلاح کو وسیع معنوں میں یعنی عقل دشمنی کے مقابل استعمال کر رہا ہوں اور اس مفہوم میں یہ کار تیزی عقلیت پسندی کے ساتھ تجربیت کو بھی محیط ہے) ہم روایت پرستی کی ایسے تیقن کے طور پر تعبیر کر سکتے ہیں جو معروضی اور قابلِ ادراک صداقت کی عدم موجودگی میں ہمارے سامنے یہ متبادل پیش کرتا ہے کہ ہمیں روایت کی سند اور انتشار میں سے کسی ایک کو قبول کرنا پڑے گا۔ جبکہ عقلیت پسندی کا ہمیشہ یہ دعویٰ رہا ہے کہ عقل اور تجربی سائنس کو کسی بھی روایت اور سند پر تنقید کرنے اور انہیں بے عقلی، تعصب یا اتفاق پر مبنی ہونے کی بناء پر رد کرنے کا حق حاصل ہے۔

IV

یہ امر تشویشناک ہے کہ خالص علمیات جیسا مجرد مطالعہ بھی اتنا خالص نہیں ہے جتنا کوئی سوچ سکتا ہے (اور جیسا کہ ارسطو کو تو یقین تھا) بلکہ علمیات کے تصورات، بڑی حد تک، سیاسی امنگوں اور یوٹوپیائی خوابوں سے تحریک پاتے اور ان سے غیر شعوری انداز میں متاثر ہوتے ہیں۔ نظریہء علم کے ماہر کے لیے اس میں تنبیہ ہے۔ اس بارے میں وہ کیا کر سکتا ہے؟ ایک ماہرِ علمیات کے طور پر میرا ایک ہی مقصود ہے- علمیات کے مسائل کے بارے میں صداقت کی تلاش، خواہ یہ صداقت میرے سیاسی تصورات کے مطابق ہو یا نہ ہو- لیکن غیر شعوری طور پر ہی سہی، کیا میری سیاسی امنگیں اور معتقدات مجھ پر اثر انداز نہیں ہو سکتے؟

صورتِ واقعہ یہ ہے کہ میں ایک نوع کا تجربیت پسند اور عقلیت پسند ہی نہیں بلکہ لبرل بھی ہوں۔ (اس اصطلاح کے برطانوی مفہوم کے مطابق)۔ چونکہ میں لبرل ہوں اس لیے مجھے احساس ہے کہ ایک لبرل کے لیے لبرل ازم کے مختلف نظریات کی تنقیدی پڑتال کرنے سے بڑھ کر اور کوئی چیز اہم نہیں۔

جب میں اس قسم کی تنقیدی پڑتال میں مشغول تھا تب مجھ پر یہ منکشف ہوا کہ کچھ علمیاتی نظریات بالخصوص علمیاتی رجائیت کی بعض صورتوں نے لبرل خیالات کو پروان چڑھانے میں کتنا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اور مجھے یہ پتہ چلا کہ ماہرِ علمیات کے طور پر مجھے ان علمیاتی نظریات کو ان کے ناقابلِ دفاع ہونے کی بناء پر رد کرنا پڑے گا۔ میرا یہ تجربہ اس نکتے کی وضاحت کر سکتا ہے کہ یہ لازم نہیں کہ ہمارے خواب اورخواہشات ہمارے نتائج کو بھی کنٹرول کر سکیں اور یہ کہ صداقت کی تلاش کی بہترین صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ہم اپنے عزیز ترین معتقدات کا تنقیدی جائزہ لینے سے آغاز کریں۔ بعض لوگوں کے نزدیک یہ انتہائی بیہودہ منصوبہ ہو گا۔ لیکن ان لوگوں کے نزدیک یہ بیہودہ نہیں ہو گا جو صداقت کو دریافت کرنا چاہتے ہیں اور اس سے خائف نہیں ہوتے۔

ڈاکٹر ساجد علی فلسفے کے استاد ہیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے انہوں نے فلسفے میں ایم اے کیا جبکہ پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ چند سال قبل پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ سے بطور پروفیسر ریٹائر ہوئے ہیں۔