پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت کو اس حقیقت کو قبول کرنا چاہیے کہ وہ اب عوام میں مقبول نہیں ہیں اور ملک گیر احتجاجی مظاہرے کرنے کے لیے اتنے مضبوط نہیں ہیں، کیونکہ وہ حالیہ دنوں میں ہونے والےضمنی انتخابات مبینہ دھاندلی کا بیانیہ بنانے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ یہ کہنا تھا سینئر تجزیہ کار مزمل سہروردی کا۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار مزمل سہروردی نے کہا کہ پی ٹی آئی کا ایک بھی رہنما پنجاب میں احتجاجی مظاہروں کی قیادت کرنے کو تیار نہیں۔ اسی طرح کراچی میں احتجاج کی قیادت کے لیے شیر افضل مروت کے علاوہ کوئی دستیاب نہیں ہے۔
تجزیہ کار نے کہا کہ پی ٹی آئی صرف خیبر پختونخواہ (کے پی) میں احتجاجی مظاہرے کر سکتی ہے، جہاں ان کی اپنی صوبائی حکومت ہے۔
9 مئی کے ہنگاموں میں ملوث پی ٹی آئی رہنماؤں کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالے جانے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے مزمل سہروردی نے کہا کہ اگرچہ ان کے نام ای سی ایل سے نکالے جا چکے ہیں لیکن ان تمام پی ٹی آئی رہنماؤں میں سے کوئی بھی ہوائی اڈوں تک نہیں پہنچ سکتا کیونکہ وہ تمام متعدد مقدمات میں مجرم ہیں۔
واضح رہے کہ شاہ محمود قریشی اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے نام تاحال ای سی ایل میں موجود ہیں۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
ایک اور سوال کے جواب میں تجزیہ کار نے کہا کہ پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی ریٹائرمنٹ تک پاکستان نہیں آئیں گے۔
سینئر تجزیہ کار مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ نے قرآن پاک پرحلف اٹھا کر سابق وزیراعظم عمران خان کے الزامات کی تردید کی ہے۔ تجزیہ کار نے کہا کہ چونکہ جنرل (ریٹائرڈ) باجوہ نے قرآن پاک پر قسم کھائی تھی کہ وہ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کو ہٹانے کی کسی سازش میں ملوث نہیں تھے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور اور لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید نے بذات خود جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے اس وقت کے وزیراعظم سے رابطہ کیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر سابق آرمی چیف جنرل باجوہ نہیں چاہتے تھے تو ان کو اس وقت ہی توسیع لینے سے انکار کر دینا چاہیے تھا۔
مزمل سہروردی نے کہا کہ آرمی چیف کے کردار کے بغیر ملک کا نظام نہیں چل سکتا۔ اگر پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی حکومت میں پاکستان معیشت اور سفارت کاری میں کمزور ہوا ہے تو اس کے لیے جنرل باجوہ بھی برابر کے ذمہ دار ہیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں تجزیہ کار نے کہا کہ پی ٹی آئی نے الزام لگایا کہ ن لیگ نے امریکہ کی حمایت اور مدد سے اپنی حکومت بنائی ہے لیکن ایرانی صدر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی کے سرکاری دورے کے بعد ان کا بیانیہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے کیونکہ اگر کوئی حکومت امریکہ کی مدد سے بنتی تو ایران کا صدر اس مکے کے دورے کے لیے نہیں آتا اور نہ ہی تجارتی معاہدے ہوتے۔ وزیراعظم شہباز شریف کے ایک ماہ کے دور حکومت میں ہی پاکستان کے خارجہ تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ سعودی عرب کے 2، 3 وفود دور ہ پاکستان کر چکے ہیں جبکہ پاکستانی وزیر خزانہ 10 روز امریکہ میں گزار کر آئے ہیں جہاں آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کی قیادت سے ملاقات ہوئی۔ اس کے علاوہ نواز شریف اور وزیر خارجہ چین کے دورے پر ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔