سپریم کورٹ نے 20 اگست کو صحافیوں کو ہراساں کرنے کے معاملے میں ایک مختلف بینچ کے حکم کو عارضی طور پر معطل کردیا لیکن ازخود کارروائی کرنے کی صورت حال کے تعین میں اسٹیک ہولڈرز سے مدد مانگ لی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ ججز پر مشتمل بینچ نے ریماکس دیے کہ چونکہ 20 اگست کے حکم پر عملدرآمد خودمختار دائرہ اختیار کی درخواست کو غیر واضح اور غیر یقینی بنا سکتا ہے جس کے نتیجے میں غیر یقینی کی صورتحال کے ساتھ تنازع پیدا ہوتا ہے۔
انہوں نے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین خوشدل خان، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کے صدر عبداللطیف آفریدی اور پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ (پی اے ایس) کے صدر کو بدھ کے روز دوبارہ کیس کی سماعت پر اپنی تیاری کرکے عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کی۔
سماعت کے دوران پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے نمائندے بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
جمعہ کے روز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے پی اے ایس کی جانب سے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے متواتر واقعات کو اجاگر کرنے کی درخواست پر کیس اٹھایا اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل، اسلام آباد پولیس کے سربراہ، سیکریٹری داخلہ، اطلاعات اور مذہبی امور کو 26 اگست کو طلب کرلیا تھا۔
قائم مقام چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے ججز میں کسی قسم کی تقسیم کے تاثر کو بھی مسترد کردیا اور ریمارکس دیے کہ عدالت قانون کی حدود میں صحافیوں کے مفادات کا تحفظ کرنا چاہتی ہے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ریماکس دیے کہ جب ازخود نوٹس لینے کا ایک قائم شدہ طریقہ کار تھا تو صحافیوں نے ادارے پر اعتماد نہیں کیا کیونکہ درخواست کو ادارے کی برانچ میں مناسب طریقے سے داخل کرنے کے بجائے بینچ کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ یہ ریماکس ایسے وقت پر سامنے آئے جب ایس سی بی اے کے صدر لطیف آفریدی نے سماعت کے دوران استدعا کی کہ ایسا تاثر نہ دیا جائے جس سے یہ لگے کہ سپریم کورٹ تقسیم ہو گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ قانونی برادری میں اس تقسیم کے بارے میں تشویش پائی جاتی ہے جبکہ اعلیٰ عدالت کو متحد رہنا چاہیے۔
لطیف آفریدی نے کہا کہ اختلاف رائے میں فرق قابل قبول ہے لیکن تقسیم نہیں، انہوں نے بینچ سے درخواست کی کہ وہ اس معاملے کو سپریم کورٹ کے تمام ججز پر مشتمل ایک فل کورٹ کے حوالے کرے تاکہ ازخود کارروائی کرنے کے طریقہ کار کو مرتب کیا جاسکے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریماکس دیے کہ کہ آپ کے اطمینان کے لیے ہم ایک ساتھ بیٹھیں گے، فل کورٹ کی تشکیل کے لیے رواں ہفتے ججز موجود نہیں ہیں۔
اے جی پی خالد خان نے سماعت کے دوران کہا کہ ایک ایسا ہی معاملہ جس پر دو ججز پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ نے 20 اگست کو حکم دیا تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔
لاجر بینچ نے اپنے حکم میں ریماکس دیے کہ 20 اگست کے حکم میں پی اے ایس کے صدر سمیت متعدد صحافیوں کی جانب سے پیش کی گئی درخواست میں درج شکایت ازخود نوٹس کے بارے میں تھی جس میں وفاقی حکومت کے کئی حکام کے ساتھ ساتھ وفاق اور صوبوں کے لا افسران کو بھی نوٹس جاری کیے گئے تھے۔
اس معاملے میں سماعت کی اگلی تاریخ 26 اگست کو اسی بینچ کے لیے مقرر تھی جس نے حکم جاری کیا تھا لیکن وہی بینچ 23 اگست والے ہفتے میں دستیاب نہیں تھا اور اس لیے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک خصوصی بینچ تشکیل دیا جانا تھا۔
خیال رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ نے صحافی عامر میر اور عمران شفقت کو گرفتار کرنے کے بعد ضمانت پر رہا اور فوج، عدلیہ اور خواتین کی مبینہ تضحیک پر ان کے خلاف مقدمات درج کیے تھے۔
سائبر کرائم ونگ لاہور کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق دونوں ملزمان کے خلاف مقدمات اعلیٰ ججز، پاک فوج اور خواتین سے متعلق تضحیک آمیز رویہ رکھنے پر پیکا کی دفعہ 11، 13، 20، 24 اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 505، 500 ،469 اور 509 کے تحت درج کیے گئے۔
پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ ان دونوں صحافیوں کے یوٹیوب پر گوگلی اور ٹیلنگز کے نام سے چینلز پر ایسے پروگرام نشر کیے گئے جس سے قومی سلامتی کے اداروں اور اعلیٰ عدلیہ کی بنیاد کو کمزور کرکے عوام کے ان اداروں پر اعتماد کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔
واضح رہے کہ عامر میر معروف صحافی اور اینکرپرسن حامد میر کے بھائی ہیں۔