Get Alerts

جنرل مشرف کا ٹرائل: فیصلہ جلدی میں نہیں تاخیر سے ہوا ہے

پاکستان میں اس وقت عدلیہ کے خلاف ایک منظم اور بھرپور قوت کے ساتھ ایک کمپین چلائی جا رہی ہے جس میں یقیناً عدلیہ کی بے توقیری کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے کردار کو متنازعہ یا ڈس کریڈٹ کرنے جیسے مذموم عزائم کو بھانپا جا سکتا ہے۔

یہ بات تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستانی سیاست میں مذموم مقاصد کے حصول، اپنے حریفوں کو زیر کرنے یا اپنے ایجنڈے اور خواہشات کی تکمیل کے لیے تین انتہائی خطرناک ہتھیار جن میں غداری، گستاخی اور بد دیانتی یعنی کے کرپشن سرفہرست ہیں کا استعمال تسلسل کے ساتھ، بے تحاشا، بار بار اور بھرپور انداز میں کیا جاتا رہا۔

پاکستان کی تاریخ میں اس تین دھاری تلوار کا استعمال ناصرف موجودہ سیاسی قیادت اور دوسرے عام لوگوں کے خلاف کیا جاتا رہا بلکہ ان کے شر سے پاکستان کے سیاسی معمار بھی محفوظ نہ رہ سکے۔ جن میں مولوی فضل الحق، جنھوں قرارداد لاہور (جس کو بعد میں قرار داد پاکستان سے جانا گیا) پیش کی، اُن پر بھی غداری کی کاری ضرب لگائی گئی۔

یہ سلسلہ غداریہ، گستاخیہ وہاں سے چلتا ہوا حسین شہید سہروردی اور پھر بانی پاکستان کے گھر میں داخل ہوا اور ان کی ہمشیرہ اور تحریک پاکستان کی روح رواں محترمہ فاطمہ جناح پر حملہ آور ہوا، اور پھر پاکستانی معمار، افغان ایجنٹ قرار پائیں۔ یہ وہ لوگ تھے جن کی کردار کی مضبوطی، جذبہ ایثار اور مالی معاملات سے بے غرضی کی بدولت ان پر مالی بد دیانتی یا کرپشن ثابت کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن تھا تو ان پر موجود دوسرے ہتھیار، جن میں غداری سرفہرست ہے، آزما کر ان کے سیاسی کردار کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔

عالمی شہرت یافتہ اور عوام میں مقبول ذوالفقار علی بھٹو شیطانی ذہین ( Evil Genius) اور بے نظیر بھٹو کو سلامتی کے لیے خطرہ یعنی سیکیورٹی رسک قرار دیا گیا۔ جبکہ بعد میں نواز شریف بد دیانت یعنی کرپٹ اور غدار دونوں قرار پائے اور ان کو پابند سلاسل کر کے ان سے ہنسنے اور رونے کی صلاحیتیں دونوں چھین لیں جس کا انھوں نے بے بسی کے عالم میں کچھ یوں اقرار کیا کہ "ہم تو اب نہ رو سکتے ہیں اور نہ ہی ہنس سکتے ہیں"۔

بلاشبہ اس تمام سیاسی توڑ پھوڑ اور سیاسی شخصیات کے کرداروں کو ایک ایک کر کے متنازعہ کرنے کے عمل میں یقیناً عدلیہ کا اہم ترین کردار رہا اور پھر 2007 کی عدلیہ آزادی تحریک نے اونگھتے ہوئے قانون کو خواب غفلت سے بیدار کیا اور پھر گراں خواب ججز سنبھلنے لگے۔

اس عدلیہ بیداری کا پہلا نمونہ دو ہزار بارہ (2012) میں دیکھنے کو ملا جس میں جسٹس افتخار محمد چودھری جو بعد میں ایک متنازعہ شخصیت ٹھہرے نے اس وقت کے  وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت میں تیس سیکنڈ کی سزا سنا کر نااہل قرار دیا۔ ان کو نہ صرف وزارت عظمی سے فارغ کیا بلکہ ان کا سیاسی کیرئر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔ اس فیصلے کو عدالتی ڈکٹیٹرشب سے تشبیہ دی گئی لیکن اس کے باوجود عدالتی احترام کے تمام تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر عدالت کے اس متنازعہ فیصلے کو حکومت نے من وعن تسلیم کیا جس کی سب سے بڑی قربانی یوسف رضا گیلانی نے اپنے سیاسی کیرئر کو ہمیشہ کے لیے ختم کر کے دی۔

عدلیہ بیداری کا دوسرا تجربہ دو ہزار سترہ (2017) میں وزیراعظم نواز شریف جو بذات خود عدلیہ آزادی تحریک کے روح رواں تھے اور کالا کوٹ پہن کر پیش پیش تھے کو عدلیہ کی جانب سے نااہل قرار دے کر دیکھنے کو ملا۔ جب ان کو پانامہ سکینڈل کیس میں عدالتوں کے سامنے پیش ہونا پڑا، وہ اپنی شدید علیل اہلیہ کو برطانیہ چھوڑ کر پاکستان آئے اور عدلیہ کا فیصلہ قبول کیا، اپنی گرفتاری پیش کی اور جیل بھی کاٹی۔

سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری اپنی ہمشیرہ کے ساتھ اس وقت قومی احتساب بیورو کے نشانے پر ہیں، اور عدلیہ کے ساتھ بغیر کسی محاذ آرائی کے اپنے خلاف قائم کرپشن مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔

شاہد خاقان عباسی ایک اور سابق وزیراعظم، جن کے سیاسی حریف بھی ناصرف ان کے بلکہ ان کے خاندان کے مضبوط کردار کی گواہی دیتے ہیں۔ ان پر ایک کمزور مقدمہ قائم کیا گیا اور وہ اپنے دونوں بیٹوں اور اپنی دونوں بہوؤں سمیت باقاعدگی سے عدالتوں میں پیش ہو کر اپنے خلاف قائم مقدمات کا قانونی طور پر سامنا کر رہے ہیں۔

اس کے علاوہ بشمول خواجہ سعد رفیق، خورشید شاہ، رانا ثنااللہ، مفتاح اسماعیل کے تقریباً تمام سیاسی قیادت کو حراست میں رکھا گیا ہے اور یہ تمام سیاسی لوگ عدالتوں میں پیش ہو کر اپنے خلاف قائم مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔

اب اگر پاکستان بننے کے بعد اس کی سیاسی تاریخ کا احاطہ کیا جائے تو پاکستان میں کم و بیش نصف عرصہ فوج براہ راست برسراقتدار رہی ہے۔ حتیٰ کہ منتخب حکومتوں کے دوراقتدار میں بھی ان کی سیاسی مداخلت کسی سے پوشیدہ نہیں، جس کا اقرار حمید گل اپنی کتاب میں کر چکے ہیں کہ وہ بطور آئی ایس آئی سربراہ پاکستان کی سیاست میں مداخلت کرتے رہے ہیں۔ ایک اور آئی ایس آئی کے سربراہ اسد درانی بھی سیاستدانوں میں پیسے تقسیم کرنے کا اقرار بار ہا کر چکے ہیں۔ اسلامی جمہوری اتحاد اور اصغر خان کیس سے کون واقف نہیں۔ لیکن ان تمام تر آئین شکنیوں، اپنے فوجی حلف کی پامالیوں اور سیاسی مداخلت کے باوجود عدلیہ ایک ادارے طور پر ان آمروں کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی کرنے سے بے بس نظر آئی۔

اس ضمن میں پاکستان عدلیہ نے عدلیہ کی تاریخ کا تاریخی فیصلہ رقم کرتے ہوئے فوجی آمر پرویز مشرف کو ان کی ایمرجنسی کے نفاذ، ججوں کو حراست میں رکھنے، آئین پاکستان کو پامال کرنے جیسے سنگین جرائم میں 6 سال کے طویل وقفے کے بعد اور بار بار عدالت میں پیش ہونے کے مواقع فراہم کرنے کے بعد، سزائے موت سنائی جس کو  افواج پاکستان کے ترجمان نے مسترد کرتے ہوئے ازسر نو مقدمے کی سماعت و پیروی کا مطالبہ کیا۔

اس تاریخ ساز فیصلے کے بعد ملک میں عدلیہ کو متنازعہ کرنے کے لیے ایک منظم تحریک چلا دی گئی۔ تمام تحقیق سے نابلد، فکر سے عاری، عقل کے کھوٹے، زبان کے جھوٹے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے قاصر لوگ اس تحریک کا حصہ بن کر عدلیہ کی بے توقیری کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے کردار کو متنازعہ یا ڈس کریڈٹ کرنے میں مصروف ہو کر بے ڈھنگے سوالات اٹھانے لگے کہ یہ فیصلہ بہت جلدی میں کیا گیا، مشرف کو سنا ہی نہیں گیا اور قانونی تقاضے پورے ہی نہیں ہوئے۔

تو کیا ایک اوپن اینڈ شٹ کیس میں 6 سال، 125 سماعتیں اور عدالتوں کے سامنے پیش ہونے کے 6 مواقع کم تھے۔ دوسرا یہ کہ یہ استغاثہ کا استحقاق ہوتا ہے کہ وہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کسی کو سزا دے اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے سہولت کاروں کو بھی سزا ملنی چاہیے تو وہ عدالت سے سہولت کاروں کے خلاف درخواست دے سکتے ہیں۔ رہی بات عدالت میں پیش نہ ہونے کی تو ملک سے باہر جانے کا عذر بیماری کا اور دبئی پہنچتے ہی انتہائی عمدہ ڈانس پوری قوم نے دیکھا۔ اس ڈھٹائی پر بالآخر عدالت کو اشتہاری قرار دینا پڑا اور اب ان گھسے پٹے دلائل سے لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ مشرف کو سنا ہی نہیں گیا۔

دراصل گھمنڈ میں مبتلا مشرف نے ان عدالتوں کے سامنے پیش ہونا اپنے شایان شان ہی نہیں سمجھا۔

سوال یہ ہے کہ اگر پانامہ کا مقدمہ اور وزیراعظم نوازشریف کی نااہلی فاسٹ ٹریک کارروائی کے تحت ایک سال میں ممکن ہوسکتی ہے، اگر بھٹو جیسے عالمی شہرت یافتہ  مقبول عوامی لیڈر کو محض 2 سال کے مختصر ترین عرصہ میں تختہ دار پر لٹکایا جاسکتا ہے تو پھر مشرف کا مقدمہ 6 سال کے طویل عرصہ میں کیوں نہیں نمٹایا جاسکتا۔

فیصلے کے نقطہ نمبر 66 کے غیر آئینی اور غیر قانونی ہونے پر ضرور بحث کی جا سکتی ہے جس میں مشرف کے ساتھ غیر انسانی رویے کی تجویز دی گئی ہے لیکن مجموعی طور پر فیصلے کے تاریخی ہونے پر پوری قوم میں خیبر سے کراچی تک اتفاق نظر آتا ہے۔