رئوف کلاسرا نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ وزیراعظم عمران خان کی آخری سپورٹ تھی جسے وہ گنوا چکے۔ آئندہ تین ماہ ان کی سیاست کیلئے بہت اہم ہیں۔ اپوزیشن کیساتھ ڈیل کی خبریں گرم، مارچ میں حکومت جانے کی باتیں ہونے لگی ہیں۔
اپنے یوٹیوب چینل پر سیاسی تجزیہ پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کیلئے مشکلات اسی دن سے شروع ہو گئی تھیں جب انہوں نے نئے ڈی جی آئی ایس کے معاملے پر بڑا سخت سٹینڈ لیا تھا۔ اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے اندر ایسی باتیں شروع ہو گئیں کہ اس بندے کو ہم خود لائے، اسے مکمل سپورٹ دی، لوگوں کی مخالفت برداشت کی، نواز شریف کو اپنا مخالف کیا۔ وہی ہماری اپوائنٹمنٹ روک کر ہمارے لئے شرمندگی کا باعث بنا اور مخالفوں کے سامنے ہمیں کمزور بنا کر پیش کر دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ تاہم جنرل فیض کی محبت کے چکر میں عمران خان یہ بات بھول گئے تھے کہ دیگر جنرلز اس حوالے سے کیا سوچیں گے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ہمیں نظر آ رہا ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان زیادہ ملاقاتیں نہیں ہو رہی۔ دونوں جانب سے فاصلہ رکھا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کی رہی سہی کسر خیبرپختونخوا کے بلدیاتی الیکشن نے پوری کر دی ہے۔ مولانا فضل الرحمان کا ان انتخابات میں جیتنا عمران خان کیلئے ویک اپ کال ہے کہ اقتدار ان کے ہاتھوں سے پھسلتا جا رہا ہے۔
رئوف کلاسرا کا کہنا تھا کہ دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ کی اپوزیشن کیساتھ ملاقاتوں کی خبریں منظر عام پر آنا شروع ہو چکی ہیں۔ سب سے اہم ملاقاتیں شہباز شریف کیساتھ ہوئی ہیں۔ ذرائع کہہ رہے کہ دونوں کے درمیان معاملات بڑی حد تک طے ہو چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پہلے ہی سے کہا جا رہا تھا کہ شہباز شریف کو وزیراعظم بنا دیا جائے جبکہ نواز شریف پارٹی کے چیئرمین بن کر موجیں کریں لیکن ان کی بات نہیں مانی گئی۔ نواز شریف اپنی ضد پر قائم رہے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ وہ اور ان کی صاحبزادی مان گئے ہیں کہ عمران خان کو اگلے پانچ سال برداشت کرنے سے بہتر ہے شہباز شریف کو ہی وزارت عظمیٰ کا عہدہ دیدیا جائے۔