طبلِ جنگ بجنے سے موت کی آخری چیخ تک

طبلِ جنگ بجنے سے موت کی آخری چیخ تک
پچھلے سال جَب پہلی بار میرا اردو بلاگ چھپا تو بے حد خوشی ہوئی اور یہ جان کر اور بھی زیادہ کہ یہ بلاگز پوری دنیا میں پڑھے جاتے ہیں۔ کافی عرصے سے کُچھ لکھا نہیں تو پڑھنے والے پوچھنے لگے کہ آپ لِکھ کیوں نہیں رہیں؟ جواب میں یہی کہا کہ جَب دِل کو کوئی بات لگے گی تو ضرور لکھونگی۔ خدا کرے کہ یہ بلاگ ہندوستان میں رہنے والوں کی، یا کم از کم جاوید اختر صاحب کی نظر سے ضرور گزر جائے۔

پلوامہ واقعے کے بعد جِس طرح بھارتی میڈیا اور فنکاروں نے پاکستان کے خلاف بولنا شروع کیا اور اُس کے بعد جَب وزیرِاعظم عمران خان نے جوابی بیان دیا تو دِل کی حالت بہت ہی عجیب ہو گئی اور میں یہ تحریر لکھنے پر مجبور ہوئی۔ میں پچھلے تیرہ سال سے کینیڈا میں مقیم ہوں، یہاں آنے سے پہلے پاکستان میں آرمی بپلک کالج میں بطور لیکچرر درس وتدریس سے منسلک رہی۔

https://www.youtube.com/watch?v=quB25KP1xsE

کینیڈا آنے کے بعد کوئی جاب نہیں کی لیکن 2018 میں یہاں کے مقامی سکول بورڈ میں رضاکارانہ طور پر انگریزی زبان کی تعلیم دینا شروع کی۔ طریقہ کُچھ یوں تھا کہ ایک دَس ہفتوں پر محیط پروگرام کے لئے مُجھے باقی تمام رضاکاروں کے ساتھ ٹریننگ کے لئے بلایا گیا۔ ٹریننگ مکمل ہوئی اور میں ایک مقامی سکول میں بطور رضاکار انگریزی پڑھانے لگی۔ مُجھے چار طلبہ کی ذمہ داری سونپی گئی جِن کے نام بتانے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ ہر طالبِ علم کی ذاتی انفارمیشن کو خفیہ رکھنے کا حلف وہ مُجھ سے ٹرینگ کے درمیان ہی اُٹھوا چکے ہیں، اس لئے میں یہاں طلبہ کے فرضی نام ہی استعمال کرونگی۔

چار میں سے دو طلبہ مشرقِ وسطیٰ سے آئے ہوئے پناہ گزین ہیں اور دو طلبہ ایسے ہیں جِن کے والدین ہندوستان سے ہجرت کر کے کینیڈا آئے ہیں۔ مُجھے اِن بچّوں کو پڑھاتے ہوئے اب کئی ہفتے گزر چکے ہیں اور اُن میں سے ایک انڈین بچّہ پروگرام کے دس ہفتے مکمل کر چکا ہے۔

https://www.youtube.com/watch?v=HFp5-k-wkuY

دَس ہفتوں کے اختتام ہر مجھے اُس کا ٹیسٹ لینا تھا اور پھر رپورٹ لکھنی تھی۔ فرض کر لیں کہ بچّے کا نام آنند ہے، میں آنند کا ٹیسٹ لے رہی تھی کہ اچانک انگریزی بولتے بولتے نہ جانے کب میں لا شعوری طور پر اردو میں کہنے لگی "چلو آنند جلدی سے بتائو یہ کونسی آواز ہے" تو آنند اپنی گول گول آنکھیں اور بڑی کر کے مُجھے دیکھنے لگا اور پھر کہنے لگا "ہاؤ ڈو یو سپیک دِس، مائی مدر سپیکس دِس لینگویج (آپ یہ زبان کیسے بول سکتی ہیں؟ یہ زبان تو میری والدہ بولتی ہیں)"۔ میں نے جواب دیا کیونکہ "میں پاکستانی ہوں اور مُجھے اردو بولنے آتی ہے"۔

وہ فوراً بولا "اردو کیا ہوتی ہے؟" میں نے جواب دیا "اردو بالکل ہندی جیسی ہوتی ہے"

اِس پر اُس نے پوچھا "کین یو سپیک پنجابی؟ (کیا آپ پنجابی بول سکتی ہیں؟)"

تو میں نے جواب دیا " آہو مینو پنجابی وی آندی اے۔ توں پنجابی اے؟ (ہاں مجھے پنجابی بھی آتی ہے۔ تم پنجابی ہو؟)" تو وہ جواب دینے کی بجائے شرما گیا۔ میں یہ بتانا بھول گئی کہ اِن بچّوں کی عُمر کوئی چھ یا سات سال کے لگ بھگ ہے، اِس لئے بہت ہی معصوم ہیں۔

https://www.youtube.com/watch?v=kAOCvR05vJE

اِس گفتگو کے بعد آنند کا ٹیسٹ مکمل ہو گیا اور اُس نے سَب ٹھیک ٹھیک بتایا۔ میں نے اُس سے کہا کہ "آنند یو گاٹ فُل مارکس (آنند تمہیں پورے نمبر ملے ہیں)" وہ بہت خوش ہو گیا اور پھر میں نے اُسے انگریزی میں بتایا کہ آنند میں تمہارے لئے ایک گفٹ لائی ہوں اور چونکہ تُم نے اتنا اچھا ٹیسٹ دیا ہے اِس لئے یہ رہا تمہارا گفٹ۔ گفٹ دیکھ کر اُس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ وہ ایک چھوٹا سا پیکٹ تھا جِس میں "لیگو" تھے۔ مُجھے وہ دو ڈالر کا ڈالر سٹور سے مِل گیا تھا۔ لیکن آنند کے لئے اُس کی قیمت اتنی تھی جتنے کی اُس کی آنکھوں کی چمک۔ میں نے اُس سے انگریزی میں کہا کہ اِس تحفے کو سکول میں نہیں کھولنا اور گھر جا کر اپنی امّی کو دکھانا اور پھر اُن کے سامنے کھولنا تاکہ وہ بھی خوش ہوں اور تُم پر فخر کریں۔ آخِر میں میں نے آنند سے کہا "آنند اپنی امّی کو یہ بھی بتانا کہ میری مِس پاکستانی ہیں"۔ یہ کہہ کر میری انکھوں میں آنسو آ گئے اور زندگی میں پہلی بار مُجھے بہت شدّت سے احساس ہوا کہ پاکستانی اور ہندوستانی قوم کو کِس طرح جنگ کی بھٹی میں جھونکا گیا ہے، وہ تمام تر باتیں میرے دماغ میں پھرنے لگیں جو بچپن سے ہمیں نصاب میں اور ٹی وی پروگراموں میں دکھائی اور سنائی جاتی ہیں۔ ویسے ہی پروگرام ہندوستان میں وہاں کے لوگوں کو دکھائے، پڑھائے اور سنائے جاتے ہیں۔

میں نے اپنے آپ سے پوچھا "سیماب، کیا تیرے پاس اِن بچّوں کی معصومیت کا کوئی جواب ہے؟ اور اگر تو اِن سے محبت کرتی ہے تو کیا تو اچھی پاکستانی نہیں رہی؟"

https://www.youtube.com/watch?v=RowYN4cL3C8

میرا سوال یہی ہے کہ آخر حب الوطنی کا معیار یہی کیوں ہے کہ ہندوستانی پاکستانیوں سے نفرت کریں اور پاکستانی ہندوستانیوں سے؟ ہندوستان اور پاکستان میں بسنے والے کیا جانیں کہ جب اِن دونوں ممالک کے بیچ تناؤ پیدا ہو جاتا ہے تو ہم پردیسی کِس طرح تڑپ جاتے ہیں۔ ہمارا روز کا اُٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے، بات چیت ہوتی ہے، دوستیاں ہوتی ہیں، کبھی کسی پارک میں کبھی بچّوں کے سکول کے باہر۔ ملک میں رہنے والے بالکل اِس بات کو محسوس نہیں کر سکتے کہ بیرونِ ملک پاکستانی اور ہندوستانی کتنے اچھے دوست بَن جاتے ہیں۔ جَب اِن دونوں ملکوں کے درمیان ٹھن جاتی ہے تو نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں ایک دوسرے سے نفرت کا احساس پیدا کرنا پڑتا ہے جو کہ پیدا ہو ہی نہیں پاتا۔

اِس بات سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ کشمیر میں ہندوستان نے ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں لیکن ابھی جِس شان سے سعودی شہزادے کو پاکستانی اعزاز سے نوازا گیا حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ سعودی عرب مغربی ممالک سے ہتھیار خرید کر کِس بے دردی سے یمن پر مظالم ڈھا رہا ہے، اُس سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا معیار دہرا ہے۔ نہ تو یمن سعودی عرب کا اندرونی معاملہ ہے اور نہ ہی کشمیر ہندوستان کا۔ جہاں بات لاکھوں انسانی جانوں کی آ جائے وہاں معاملہ انسانیت کا ہوتا ہے اور ہر انسان کا فرض ہے کہ اُس پر آواز اُٹھائے۔
ہندوستان سے کشمیر پر بات ضرور کیجیے لیکن یمن کی طرف سے آنکھ بند کر لینا کہاں کی انسانیت ہے؟ مانا کہ جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات ہوتی ہے لیکن دوسرے اسلامی ممالک پر ہونے والے ظلم پر چپ سادھ لینا کیا ظلم کا ساتھ دینا نہیں ہے؟

ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ کا نعرہ لگا کر معصوم بے گناہ عوام کو موت کے منہ میں دھکیلنے سے بہتر ہے کہ آرام سے بیٹھ کر بات کی جائے۔ کسی کشمیری نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ اِس لڑائی میں نقصان کسی کا نہیں ہو رہا، بارڈر کی دونوں جانب بچّے صرف غریب کے مارے جا رہے ہیں۔ یاد رکھیے کہ طبلِ جنگ بجنے سے موت کی آخری چیخ تک کا دورانیہ بہت خوفناک ہوتا ہے۔ اُس کے بعد دِل دہلا دینے والی خاموشی ہوتی ہے، بہت سے دریدہ بدن، ہزاروں لاشیں اور بھکرے ہوئے بالوں میں سسکتے سندور یا کسی بیوہ کی سسکیاں۔

اے خدا! تو بھی اِس جنگ کو منظوری نہ دیجیو۔