اسلام آباد: سینیٹر ڈاکٹر اسد اشرف نے کہا ہے کہ فیروز سنز کمپنی کی میڈیسن خریدی تو اس میں ایک میڈیسن آدھی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں 50 فیصد ادوایات زائد المیاد تاریخ کی فروخت کی جا رہی ہیں۔ ڈریپ سخت اقدام لے۔ ادوایات پر جو تاریخ درج کی جاتی ہے اس کو پڑھنا انتہائی مشکل ہے۔
پیر کو سینیٹ کی ذیلی کمیٹی برائے تفویض کردہ قانون سازی کا اجلاس کمیٹی کے کنوینر سینیٹر ڈاکٹر اشوک کمار کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں ڈریپ سے متعلق قواعد و ضوابط اور ایس آر اوز اور کام کے طریقہ کار کے حوالے سے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔
ذیلی کمیٹی کو ڈریپ کے حوالے سے تفصیلی طور پر آگاہ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ ڈریپ 2012 میں قائم کی گئی تھی۔ یہ اتھارٹی وفاقی حکومت کے ماتحت ہے اس کا ہیڈکوارٹر اسلام آباد میں ہے۔
ذیلی کمیٹی نے اسلام آباد میں قائم 19 مینو فیکچرنگ کمپنیوں میں ڈریپ کی طرف سے کیے گئے معائنے کی تفصیلات طلب کر لیں۔
سینیٹر میر محمد یوسف بادینی نے کہا کہ ڈریپ ایک ہیلپ لائن نمبر بنائے جس میں لوگ آسانی سے اپنی شکایات درج کرا سکیں۔ کنونیئر کمیٹی سینیٹر ڈاکٹر اشوک کمار کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ پرائسنگ پالیسی 2015 میں بنی اور 2018 میں اس میں ترمیم کی گئی۔ کمیٹی کو آئندہ اجلاس میں پرائسنگ پالیسی کے حوالے سے تفصیلی آگاہ کر دیا جائے گا اور یہ بھی آگاہ کیا گیا کہ آر آئی ایم ایس کا سافٹ ویئر جون 2020 میں تیار ہو جائے گا اور تمام لائسنسنگ وہیں سے ہوگی۔
اس اتھارٹی کے فیلڈ آفسز صوبائی دارلخلافوں میں قائم ہیں۔ 18 ویں ترمیم کے بعد یہ صوبوں کو منتقل ہوا تھا۔ پی آئی سی میں مسئلہ ہونے کی وجہ سے یہ دوبارہ وفاق میں شامل ہو گیا۔ 2012 سے پہلے یہ اتھارٹی ڈرگ اور میڈیسن کو ڈیل کرتی تھی، اس کے بعد اس میں الوپیتھک ڈرگز، بیالوجیکل ڈرگز، میڈیکل ڈیوائسز، متبادل میڈیسنز، ہیلتھ اینڈ او ٹی سی اور میڈیکیٹڈ کامیٹکس شامل کی گئیں۔
وفاق ڈریپ میں مینو فیکچرنگ، لائسنس، پرائس، ایکسپورٹ، امپورٹ، کوالٹی کنڑول، کوالٹی اشورنس اور فارما سروسز کو کنڑول کرتا ہے جبکہ صوبائی سطح پر سیلز سٹوریج اور تقسیم کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ صوبوں اور وفاق کے اپنے اپنے ڈرگ انسپکٹرز ہیں صوبے اور وفاق اپنی اپنی لیبز کی چیکنگ کرتے ہیں۔ ڈریپ کے 640 ملازمین میں سے 190 ٹیکنکل ہیں۔اسلام آباد میں 3 ڈرگ انسپکٹر ہیں۔ کوالٹی کنٹرول بورڈ ہر صوبے کا اپنا ہے۔ اراکین کمیٹی سینیٹر میر محمد یوسف بادینی اور ڈاکٹر اسد اشرف نے کہا کہ ڈرگ انسپکٹرز کی تعداد کو بڑھانا چاہیے۔ کمیٹی کو بتایا کہ ڈریپ میں پہلے 12 ڈرگ انسپکٹرز تھے ان کی تعداد گزشتہ دو سالوں میں بڑھا کر 30 کر دی گئی ہے۔
ہر 20 یونٹ پر ایک انسپکٹر ہے اور کل619 یونٹس ہیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے پہلے 4 ڈویژن تھے اب 13 بنائے گئے ہیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ڈبلیو ایچ او کے معائنہ کے بعد ڈریپ رولز کوریوائز کیا جارہا ہے اور اس حوالے سے متعلقہ اسٹیک ہولڈز سے رولز کیلئے مشاورت بھی کی گئی ہے۔ ملک میں 11 ٹیسٹنگ لیبز ہیں جن میں سے دو ڈبلیو ایچ او سے تصدیق شدہ ہیں اور اگلے ایک سال تک 50 فیصد ڈبلیو ایچ او کے معیار تک پہنچ جائیں گے۔ سینیٹر ڈاکٹر اشوک کمار نے کہا کہ ادوایات کی ٹرانسپوٹیشن ایک مخصوص درجہ حرات میں ہوتی ہے مگر ملک میں ان چیزوں کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ڈریپ صوبوں کے ساتھ مل کر اس حوالے سے اقدامات اٹھائے۔انہوں نے کہا کہ لائسنس کا اجراء کرتے وقت ڈسٹری بیوشن وینز یقینی بنائی جائیں۔کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ بار کوڈ کا ڈرافٹ تیار کر کے وزارت قانون کو جائزہ لینے کیلئے بھیجا ہے۔ جس پر کنونیئر کمیٹی نے کہا کہ جب تک بار کوڈ کے حوالے سے عملدرآمد نہیں کیا جائے گا مسائل کم نہیں ہونگے۔ بہتری کیلئے اقدامات اٹھانے چاہیں۔ ذیلی کمیٹی کواجراء کیے گئے ایس آر اوز کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ مختلف اقسام کی 7 ترامیم انڈر پراسس ہیں۔ ذیلی کمیٹی نے یہ بھی ہدایت کی کہ اردو میں لکھی ادوایات مارکیٹ میں آنی چاہیں تاکہ لوگ ان کو پڑھ بھی سکیں۔ ذیلی کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ انسانی اعضاء کی پیوند کاری کی اتھارٹی کا آئندہ اجلاس میں تفصیل سے جائزہ لیا جائے گا۔