پروفیسر ڈاکٹر چوہدری رفیق الابرار ڈھاکہ یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات عامہ کا مضمون پڑھاتے ہیں۔ وہ ریفیوجی اینڈ مائیگریٹری موومنٹس ریسرچ یونٹ کے کوآرڈینیٹر بھی ہیں۔ انہوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف سسیکس سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد لسبن سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ وہ ماضی میں جمہوری تحریکوں اور انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرمیوں میں کافی متحرک رہے ہیں۔ ابھی بھی ان شعبہ جات میں کام کرنے والی تنظیموں کے ساتھ ان کے تعلقات قائم ہیں۔ ڈاکٹر ابرار نے سابق بنگلہ دیشی وزیر خارجہ پروفیسر شمس الحق کے ساتھ ملک کر امداد، ترقی اور ڈپلومیسی پر ایک کتاب بھی تحریر کی۔ پھر انہوں نے اپنی تعلیم کی لائن کو تبدیل کیا اور مہاجروں کے مسائل مثلاً مہاجروں کے حقوق اور ہجرت کر کے آئے ہوئے مزدوروں کے حقوق پر اپنی توجہ مرکوز کی۔ وہ لاہور میں ایک سیمینار میں شرکت کیلئے تشریف لائے تو مجھے ان کے ساتھ نشست کا سنہری موقع ہاتھ آ گیا۔ اس نشست میں سے چند چیدہ چیدہ باتیں قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔
زمان خان: بہاریوں اور پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی بنگلہ دیش میں کیا حالت ہے؟
پروفیسر ابرار: میں انہیں بھلائی گئی اقلیتیں قرار دیتا ہوں۔ یہ شرم کا مقام ہے کہ ان لوگوں کو بھلا دیا گیا ہے۔ یہ اس خطے کی سیاسی قیادت کی مکمل ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔ وہ اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ غریب لوگ ہیں جنہوں نے کسی زمانے میں ہجرت اختیار کی تھی۔ انہوں نے بھارت میں اپنے گھر بار چھوڑ کر ریاست پاکستان کی تائید کی تھی۔ انتہائی مشکل حالات میں انہوں نے اس وقت کے پاکستان میں زندگیوں کو نئے سرے سے شروع کیا۔ لیکن وہ مشرقی پاکستان میں ہونے والی سیاسی پیش رفت کے مہرے بن گئے۔ انہیں پاکستان کی سول اور فوجی بیوروکریسی نے استعمال کیا تھا۔ 1971 میں انہیں جنگ کے فوراً بعد غدار اور پاکستان کا معاون قرار دے دیا گیا۔ لیکن میں یہ دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ساری برادری نے پاکستان کی معاونت نہیں کی تھی۔ دوسرا مسئلہ پاکستان سے متعلق ہے۔ پاکستان میں مختلف حکومتوں نے ان لوگوں سے وعدہ کیا تھا کہ انہیں پاکستان واپس لایا جائے گا۔ بینظیر بھٹو کے علاوہ تمام حکمرانوں کے بیانات اس ضمن میں ریکارڈ پر موجود ہیں۔ ان حکمرانوں نے اس ضمن میں یہ پوزیشن اختیار کی کہ گو ہم پر ان لوگوں کو واپس لانے کی کوئی قانونی ذمہ داری نہیں ہے لیکن اسلامی بھائی چارے کی بنا پر ہم انہیں واپس لائیں گے۔ لیکن پاکستان کے اندرونی سیاسی مسائل (بالخصوص سندھ) کے باعث یہ عمل کبھی شروع ہی نہیں ہو پایا۔
https://www.youtube.com/watch?v=D41PQGuCby4
یہ ایک انسانی حقوق کا مسئلہ ہے جسے سیاستدانوں کو حل کرنا چاہیے۔ بنگلہ دیش میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی قیادت نالائق اور ماضی میں مقید ہے۔ یہ اپنی برادری کی مؤثر قیادت کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں اس برادری میں ایک گروہ بن گیا ہے جو اپنے مفادات کی خاطر سٹیٹس کو کی حمایت کرتا ہے۔ یہ گروہ بنگلہ دیش کی حکومت کی جانب سے اس برادری کو دیے جانے والی امداد کا ایک بڑا حصہ ہڑپ کر جاتا ہے۔ اس نے وطن واپسی کے مسئلے کو زندہ رکھا ہے۔ میرے خیال میں اب زمینی حقائق تبدیل ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ بنگلہ دیش میں ہی رہنا چاہتے ہیں اور بنگالی شہریت اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ بلکہ 1971 کے فوراً بعد بنگلہ دیشی حکومت نے انہیں شہریت حاصل کرنے کی پیشکش بھی کی تھی۔ جو کیمپوں کو چھوڑ کر گئے وہ بنگلہ دیش کے قومی دھارے میں شامل ہو گئے۔ لیکن کیپموں میں بہت سے افراد اس آس پر موجود رہے کہ جلد ہی جنگ کا خاتمہ ہو جائے گا اور وہ جیت جائیں گے۔ ان کی تعداد کے بارے میں ایک سروے کروانا چاہیے اور دونوں ممالک کے مابین ایک اچھی فضا قائم ہونی چاہیے تاکہ بچھڑے ہوئے خاندانوں کو آپس میں ملوانے کیلئے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے جا سکیں۔ باقی تمام لوگوں کو بنگلہ دیش کی شہریت دے دینی چاہیے۔ میرے خیال میں وہ بنگالی ہیں اور ان کا مقدمہ جلد سے جلد نبٹا دینا چاہیے۔
یہ ایک اچھی خبر ہے کہ دس ایسے افراد جو بنگلہ دیش قائم ہونے کے بعد پیدا ہوئے انہوں نے بنگلہ دیش کی ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور فیصلہ ان کے حق میں آیا۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ ان افراد کا اندراج رائے دہندگان کی فہرستوں میں کیا جائے۔ یہ ایک دلچسپ کیس کے طور پر سامنے ابھر کر آ رہا ہے جہاں بہاریوں کو بنگلہ دیشی شہریت دے دی گئی۔ دوسری جانب ہمارا خیال ہے کہ پاکستانی دانشوروں اور ترقی پسند طبقات کو اس مسئلے پر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ انہیں ان خاندانوں کیلئے تحریک چلانی چاہیے جو ابھی بھی پاکستان آنا چاہتے ہیں۔
زمان خان: کیا آپ اس بات سے متفق ہیں کہ ہمارے خطے میں زیادہ تر ہجرت کا باعث ترقیاتی سرگرمیاں، بالخصوص بڑے ڈیموں کی تعمیر ہے؟
پروفیسر ابرار: بڑے ڈیموں کی تعمیر پر کئی سالوں سے بین الاقوامی تنقید جاری ہے۔ اس ضمن میں بہت سی تحریکیں بھی چلی ہیں جن کا مقصد بڑے ڈیموں کی تعمیر کو روکنا ہے تاکہ ان کی تعمیر کے باعث محروم اور پسماندہ طبقات کی زندگیاں مزید متاثر نہ ہوں۔ ان ڈیموں کے فوائد ان کی تعمیر سے متاثرہ طبقات کو فراموش کروا دیتے ہیں۔ بہت سے واقعات میں لوگوں کو زبردستی اپنی زمین سے نکالا گیا ہے تاکہ پانی ذخیرہ کرنے کیلئے جگہ بنائی جا سکے۔ ان لوگوں کو کئی مرتبہ مناسب معاوضہ بھی فراہم نہیں کیا جاتا۔ جبکہ ان لوگوں کیلئے دوبارہ سے زندگیوں کو شروع کرنا بھی آسان نہیں ہوتا۔ اس مسئلے کی ایک مثال بنگلہ دیش میں چاکما مسئلہ ہے۔ یہ ان مسائل میں سے ایک ہے جو باالآخر مشکلات کا باعث بنتے ہیں اور قومی ہم آہنگی کو متاثر کرتے ہیں۔ ہمیں اس کی تفضیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ وہ لوگ جو بڑے ڈیموں کی تعمیر یا ان کے مخالف ہیں ان لوگوں نے ڈیموں کی تعمیر پر ایک آزاد کمیشن تشکیل دے کر اس مسئلے پر بحث شروع کر دی ہے۔
اگر آپ اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ 1975 سے 1985 کے بیچ ورلڈ بنک ہر سال تقریباً 26 ڈیموں کی تعیمر کیلئے سرمایہ مہیا کرتا تھا، لیکن موجودہ دہائی کے دوران اس تعداد میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ ان دس سالوں میں ورلڈ بنک نے سالانہ محض چار ڈیموں کیلئے سرمایہ مہیا کیا۔ جوں جوں ڈیموں کی تعمیر کے خلاف احتجاج میں شدت آتی گئی، مالیاتی اداروں کی ڈیموں کہ تعمیر میں دلچسپی کم ہوتی چلی گئی۔ پھر ورلڈ بنک کی ایک شق یہ بھی ہے کہ نجی شعبہ منصوبے کا وہاں سے آغاذ کرے گا جہاں بنک نے اسے چھوڑا تھا۔ لیکن چونکہ ان منصوبوں میں بہت بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے نجی شعبہ اپنے سرمایہ کاری کے منصوبوں کے ساتھ آگے نہیں آیا۔ کچھ اور عناصر جو نجی شعبے کی مشکلات میں اضافے کا باعث ہیں ان میں منصوبوں کی طویل مدت اور مختلف ممالک میں ماحولیاتی قانون سازی کے تقاضوں کو پورا کرنا بھی شامل ہیں۔
1990 میں آپریشنل ایویلوئیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ورلڈ بنک کی پالیسیوں کے جائزے میں اس امر کا ادراک ہوا کہ بنک نے کم سے کم پانچ ایسے ڈیموں کی تعمیر کیلئے سرمایہ فراہم کیا جو اس کے معیار پر پورا نہیں اترتے تھے۔ ان میں سے دو ڈیم جنوبی ایشیا میں واقع ہیں۔ ایک پاکستان کا منگلا ڈیم اور دوسرا نیپال کا خانی ڈیم۔ جائزہ لینے والی ٹیم حیرت زدہ تھی کہ آخر بنک نے کیونکر ایسے ڈیموں کی تعمیر کیلئے سرمایہ مہیا کیا جو اس کے اپنے معیار پر بھی پورا نہیں اترتے تھے۔ گذشتہ سالوں کے درمیان یہ معیار اور بلند ہو گئے جس کے باعث کم سے کم پچاس ڈیموں کے منصوبوں کو رد کیا گیا ہے۔
زمان خان: آپ ان لوگوں کو کیسے دیکھتے ہیں جو اپنے ہی وطن کے اندر بے گھر ہو جاتے ہیں؟
پروفیسر ابرار: میں انہیں "نظروں سے اوجھل" کہتا ہوں۔ وہ لوگ جو مجبوراً اپنا وطن چھوڑ کر پناہ گزین ہو جاتے ہیں ان کیلئے بین الاقوامی قواعد و ضوابط موجود ہیں۔ لیکن ایسے لوگ جنہیں اپنے وطن کے بجائے اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ "نظروں سے اوجھل" کا تصور نظریاتی ہے۔ یہ اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ وہ اپنے نکالے جانے کے فیصلے کے عمل کا حصہ نہیں تھے۔ ایک طرح سے انہیں جبراً نکالا گیا۔ یہ جبر کا انداز "نظروں سے اوجھل" نظریے میں اجاگر کیا گیا ہے۔ اسے ابھی قبولیت کی سند نہیں ملی لیکن میرا خیال ہے کہ بہت سے لوگوں کو ان کے گھروں سے بے دخل ہونے کے بعد انصاف یا مناسب معاوضہ بھی نہیں ملتا ہے۔