بازاروں میں لڑکیوں کو چھیڑنا تو لاہور کی عید کا مزہ ہے، مجھے چھیڑے جانے پر مسئلہ نہیں: ماورا حسین

بازاروں میں لڑکیوں کو چھیڑنا تو لاہور کی عید کا مزہ ہے، مجھے چھیڑے جانے پر مسئلہ نہیں: ماورا حسین
پاکستانی معاشرے میں ایک جانب خواتین کے حقوق اور انکے تحفظ کی بحث جاری ہے اور اس کو اب  ایک سیاسی اسلوب بھی دیا جا چکا ہے۔  معاشرے میں یہ بحث کی جا رہی ہے کہ آیا خواتیں کی حیثیٹ تابع دار اشیا کے علاوہ بھی کچھ ہے یا نہیں۔ کیا انکی عزت نفس مقدم ہوگی یا نہیں۔ کیا انکی زندگیوں، جسموں اورانکے بارے میں فیصلوں پر اختیار ہوگا یا نہیں؟ یہ تمام سوالات ابھی تک شاید اتفاق طلب ہیں۔ اس بحث میں جو  کہ اب مکمل طور پر سیاسی مسئلہ بنتی جا رہی ہے طاقتور، نامور اور اثر رو رسوخ رکھنے والی خواتین خواتین کے حقوق کی تحریک کے حق میں اپنا حصہ ڈال کر اسکی خاطر خواہ خدمت کر سکتی ہیں۔  تاہم ایسی خواتین کی جانب سے گمراہ کن بیانات  جو ایک پدر شاہی معاشرے میں جہاں  خواتین کے تحفظ کے لئے اٹھائے گئے ہر اقدام کی ایک قیمت ہوتی ہے،  اس قیمت کو کئی گنا تک مزید بڑھا جاتے ہیں۔

ایسا ہی معاملہ اب شوبز سلیبرٹی  اداکارہ ماورا حسین کے حوالے سے سامنے آیا ہے۔ ان کا دو سال قبل کا ایک انٹرویو وائرل ہوا ہے جس میں وہ اے آر وائی کے مارننگ شو کی میزبان ندا یاسر سے محو گفتگو ہیں۔ ندا یاسر ان سے پوچھتی ہیں کہ لاہور میں تو عید پر شاپنگ کے دوران گلیوں میں بازاروں میں لڑکیوں کو چھیڑا جاتا ہے (اس بارے میں انکا کیا خیال ہے)

 

تو ماورا کہتی ہیں کہ یہ تو لاہوری عید کا مزہ ہے۔ لڑکے لڑکیوں کو چھیڑ رہے ہیں اور اونچی آواز میں میوزک لگا رکھا ہے۔ یہ سب تو فن ہے۔ اس سوال پر کہ کیا اب انکو چھیڑا جائے تو؟۔ جس پر وہ کہتی ہیں کہ انہیں  کوئی مسئلہ نہیں،  پھر سب کی ترجمانی میں کہتی ہیں کہ ہمیں چھیڑتے رہیئے۔

نیا دور سمجھتا ہے کہ ماورا حسین اگر اپنی مرضی کے خلاف چھیڑے جانے سے محظوظ ہوتی ہیں تو وہ انکی اپنی ذاتی پسند نا پسند ہے۔ تاہم یہ کسی صورت بھی اس لئے جائز عمل قرار نہیں دیا جاسکتا اور اسی لئے ان کا سب خواتین کی خود ساختہ ترجمانی کرنا انتہائی خطرناک عمل ہے جس کی کوئی گنجائش نہیں۔

یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی شخص ایذا رسانی کے کسی کھیل میں لطف اندوز ہوتا ہو اور اسی بنیاد پر وہ معاشرے کی مرضی کا خود ساختہ ترجمان بن بیٹھے کہ  زندہ معاشرے اور نافذ قانون کسی صورت بھی اسکو عوامی سطح پر رائج کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

خواتین کو بازاروں، مارکیٹوں سمیت کسی جگہ بھی چھیڑے جانا ایک قبیح فعل ہے اور حراسگی کے زمرے میں ہی آتا ہے۔ اور یہ عمل اپنے اثر میں انتہائی منفی اور مضر مضمرات رکھنے والا ہے۔ یہ عمل کس طرح ایک انسان کی روح کو چھلنی کرتے ہوئے اسکی عزت نفس کی دھجیاں بکھیر دیتا ہے اس حوالے سے بالی ووڈ لیجنڈ امیتابھ بچن کا انہی کی زبانی واقعہ موقع کی مناسبت سے صائب آتا ہے۔ کہ جب انہیں جوانی میں دہلی کے ایک سکول میں تھیٹر ڈرامہ کے لئے جانا پڑا تو وہاں کے گرلز ہاسٹل ائیریا میں ریہرسل کا انتظام تھا۔ وہاں سے گزرتے ہوئے انہوں نے کئی درجن لڑکیوں کی جانب سے آوازیں کسے جانے کا تجربہ کیا۔ اس ننے انہیں ہلا کر رکھ دیا۔ کوئی انکی ٹانگوں تو کوئی انکی رنگت اور کوئی انکی چال کو لے کر جنسی ترغیبات پر مبنی جملے کس رہا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک درد ناک تجربہ تھا تاہم لیجنڈری اداکار کو سمجھ آگئی کہ ایسا کرنے سے جنس مخالف کو کیسا محسوس ہوتا ہوگا؟

اور نیا دور کے خیال میں شوبز سٹار کے اس بیان پر سوشل میڈیا میں ہر طرف جو  ان پر تنقید کی جا رہی ہے اور انہیں کہا جا رہا ہے کہ اپنے معاملات اپنے تک رکھیں دوسروں کی ترجمانی نہ کریں کہ دوسری لڑکیوں کو چھیڑے جانے سے بہت مسئلہ ہے،  عوامی رد عمل کی یہ ہی سند معاملے پر اپنا رخ درست سمت میں رکھنے کے لئے  کافی ہے۔

https://twitter.com/Abbasayy/status/1286340678000218114