تحقیق: ندیم فاروق پراچہ
معروف تاریخ دان فیصل دیوجی کے مطابق پاکستان کی تاریخ ایک دائروں کا سفر ہے۔ یہاں اقتدار فوج اور سیاستدانوں کے بیچ ایک کھلونا ہے جو کبھی ایک کے ہاتھ میں ہوتا ہے تو کبھی دوسرے کے۔ 73 سال کی تاریخ میں 33 سال ملکی فوج نے براہ راست اور کئی سال سیاستدانوں کے چہروں کے پیچھے سے وطنِ عزیز پر حکمرانی کی ہے۔ کل ملا کر چار فوجی ہیں جو ملک کے لمبے عرصے تک سربراہ بھی رہے جن میں سب سے پہلے جنرل ایوب خان تھے جن کا اقتدار 1958 سے 1969 تک جاری رہا۔ ان سے اقتدار جنرل یحییٰ خان نے لیا اور دو سال میں بنگال کو بنگلہ دیش میں تبدیل کرنے کے بعد بالآخر اقتدار سے علیحدہ ہونے پر راضی ہوئے۔ 1977 سے 1988 تک جنرل ضیاالحق نے ملک پر حکومت کی جب کہ جنرل ضیا کے بعد جنرل پرویز مشرف نے اکتوبر 1999 سے اگست 2008 تک ملک پر قبضہ جاری رکھا۔
لیکن یہ چار مارشل لا تو وہ ہیں جن کے بارے میں سب کو علم ہے۔ اس کے علاوہ بھی کم از کم پانچ مرتبہ مختلف ادوار میں ملک پر قبضے کی کوششیں ہوئیں لیکن یہ کامیاب نہ ہو سکیں۔ ان میں سب سے پہلی فوجی بغاوت کی کوشش 1951 میں ہوئی۔
جنرل اکبر خان، راولپنڈی سازش کیس، 1951:
کشمیر پر بھارت اور پاکستان کے درمیان پہلی جنگ 1948 میں ہوئی جس کا اختتام پنڈت جواہر لعل نہرو کے اس معاملے کو اقوام متحدہ لے جانے پر ہوا۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کی بات مان لی اور ایک ریفرنڈم کے وعدے پر جنگ بندی بھی ہو گئی لیکن فوج کے اندر ایک بڑی تعداد کا ماننا تھا کہ پاکستان کو اقوام متحدہ کی بات نہیں ماننی چاہیے تھی۔ ایسے ہی جرنیلوں میں ایک جنرل اکبر خان تھے جو کہ ترکی کے مصطفیٰ کمال اتاترک کے بہت بڑے مداح تھے۔ پاکستان کے دوسرے آرمی چیف جنرل گریسی جب 1950 میں ریٹائر ہوئے تو وہ جنرل ایوب خان کو کہہ کر گئے تھے کہ اکبر خان ایک ’کمالسٹ‘ ہے اور اس پر نظر رکھیں۔
جنرل اکبر خان کی اہلیہ کمیونسٹ خیالات رکھتی تھیں اور جب جنرل اکبر خان نے کشمیر کے معاملے پر دلبرداشتہ ہو کر حکومت الٹنے کا فیصلہ کیا تو ان کی اہلیہ نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ بائیں بازو سے اس سلسلے میں مدد طلب کریں، جو کہ انہوں نے کی بھی۔ بائیں بازو کے سیاستدانوں سے کہا گیا کہ وہ طلبہ اور مزدوروں کو سڑکوں پر لا کر احتجاج کروانا شروع کریں تاکہ فوجی ٹیک اوور کا ماحول بن سکے۔ بدلے میں انہوں نے وعدہ کیا کہ اقتدار پر قبضے کے بعد وہ بھی نظام میں بائیں بازو کی اصلاحات نافذ کریں گے۔ ابھی یہ حکمتِ عملی طے ہو ہی رہی تھی کہ جنرل اکبر خان کے ہی ایک ساتھی فوجی نے ان کی مخبری کر دی۔ جو فوجی اور سویلین اس کوشش میں شامل تھے، انہیں گرفتار کیا گیا اور سب کو قریب تین، تین سال کی سزائیں دی گئیں۔
انہی میں فیض احمد فیض، سجاد ظہیر اور ظفر اللہ پوشنی بھی تھے۔ گذشتہ برس اکتوبر میں نیا دور سے بات کرتے ہوئے ظفر اللہ پوشنی نے اس حوالے سے ایک انٹرویو دیا تھا جس میں انہوں نے بتایا کہ بائیں بازو کے سیاستدانوں نے فوج کو آخری اجلاس میں بتا دیا تھا کہ وہ حکومت پر اس فوج کشی کا حصہ بننا نہیں چاہتے۔ سنیے انہوں نے کیا کہا، اور پھر اقتدار پر قبضے کی اگلی ناکام کوشش کی طرف چلتے ہیں جو کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہوئی۔ ظفر اللہ پوشنی:
https://youtu.be/YvDYeg-Bfa4?t=148
بھٹو صاحب کے خلاف مارشل لا کی کوشش سے پہلے یہ بتاتے چلیں کہ 1951 کی ناکام بغاوت کی پاداش میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان اور اس کے طلبہ ونگ ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
برگیڈیئر علی، Bonapartists کی سازش، 1973:
جنرل ایوب نے 1958 میں اقتدار پر قبضہ کیا، ان کے بعد جنرل یحییٰ اقتدار میں رہے، لیکن 1971 میں بنگال کے ٹوٹنے کے بعد انہیں بالآخر فوج کے اندر سے ہی دباؤ کے باعث حکومت سے علیحدہ ہو کر اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کرنا پڑا۔ لیکن اقتدار میں آ کر بھٹو صاحب نے فیصلہ کیا کہ اس قسم کے فوجی افسران کو فوج سے نکالنا ضروری ہوگا جو اس حد تک سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ لہٰذا انہوں نے ان ’Bonapartists‘ کو ایک ایک کر کے نکالنا شروع کر دیا۔ یہی وہ موقع تھا جب اس باغی گروپ نے حکومت کے خلاف کو کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا سرغنہ برگیڈیئر ایف بی علی تھا اور یہ ان فوجی افسران میں سے ایک تھا جنہوں نے جنرل یحییٰ پر اقتدار سے علیحدگی کے لئے دباؤ ڈالا تھا۔ اس کے ساتھ میجر فاروق آدم خان، سکواڈرن لیڈر غوث، کرنل علیم آفریدی اور لیفٹننٹ کرنل طارق رفیع بھی شامل تھے جنہوں نے حکومت کو ہٹانے کا منصوبہ تیار کیا۔
کرنل آفریدی نے آخری وقت میں اس منصوبے سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کرتے ہوئے حکومت کو اس کی مخبری کر دی اور ان تمام افراد کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ ان افسران کے خلاف مقدمہ چلایا گیا تو ان کے وکیل ایس ایم ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان افسران کے مطابق مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجہ یہ تھی کہ وہاں موجود افسران اسلام پر صحیح طرح عمل نہیں کرتے تھے۔ ان تمام افسران کا کورٹ مارشل کر کے انہیں جیل کی سزا سنانے والے ٹربیونل کا سربراہ اس وقت لیفٹننٹ جنرل ضیاالحق تھا جس نے جولائی 1977 میں بھٹو حکومت الٹنے کے بعد 1978 میں ان افسران کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
میجر جنرل تجمل ملک، جنرل ضیا کی حکومت ’اسلامی‘ نہیں، 1980:
جنرل ضیاالحق نے 1976 میں تجمل حسین ملک نامی ایک میجر جنرل کو اس بنیاد پر فوج سے جبری ریٹائر کروا دیا تھا کہ یہ بھٹو حکومت کے خلاف تھا۔ لیکن 1977 میں خود ہی اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ تاہم، 1980 میں تجمل حسین ملک نے چند حاضر سروس افسران کی حمایت حاصل کی اور ایک ’اسلامی‘ انقلاب کے نام پر 23 مارچ کی پریڈ کے موقع پر جنرل ضیا کے قتل کا منصوبہ بنایا تاکہ اس کی ’جعلی اسلامی حکومت‘ کی جگہ ایک ’اصلی اسلامی حکومت‘ لائی جا سکے۔ 2001 میں ایک انٹرویو کے دوران میجر جنرل (ر) تجمل ملک نے کہا کہ وہ خلفا راشدین جیسی حکومت واپس لانا چاہتا تھا۔ لیکن اس منصوبے کا علم حکومت کو ہو گیا اور ان تمام افسران اور تجمل ملک کو گرفتار کر لیا گیا۔ 1988 میں بینظیر بھٹو حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد انہیں رہا کر دیا۔
رضا کاظم اور غلام مصطفیٰ کھر، مارکسی انقلاب، 1984:
تجمل ملک کی اقتدار پر قبضے کی کوشش تو ناکام ہو گئی لیکن اس کے چار سال بعد ایک مرتبہ پھر جنرل ضیا کا تخت الٹنے کی ایک کوشش ہوئی۔ اس مرتبہ یہ کوشش بائیں بازو کی طرف سے ہوئی۔ 1982 میں پاک فوج کے دو افسران فلسفی اور قانون دان رضا کاظم سے ان کے گھر پر ملے۔ کاظم اس سے قبل ایک سال جیل میں رہ کر آ چکے تھے کیونکہ انہوں نے جنرل ضیا کے خلاف ایک پمفلٹ لکھا تھا۔ ان دونوں میجر صاحبان نے ضیا حکومت سے اکتاہٹ کا اظہار کیا۔ اس کے بعد یہ دونوں میجر حضرات رضا کاظم سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ ان کے ساتھ ایک ترقی پسند دانشور علی محمود بھی اکثر ہوتے۔ بعد ازاں غلام مصطفیٰ کھر نے بھی رضا کاظم سے رابطہ کیا۔ کھر اس وقت برطانیہ میں تھے۔ انہوں نے رضا کاظم کو بتایا کہ وہ برطانیہ میں جلا وطن پاکستانیوں سے فنڈ اکٹھے کر رہے ہیں جو پاکستان میں ضیا مخالف احتجاج کے لئے استعمال کیے جائیں گے۔ رضا کاظم بھی ایک کامیاب وکیل تھے جنہوں نے ان لوگوں کو 90 ہزار روپے اس مد میں دیے۔ یہ وہ موقع تھا جب انہیں بتایا گیا کہ حکومت الٹنے کا ایک منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے۔
رضا کاظم کے مطابق منصوبہ یہ تھا کہ حکومت کا تخت الٹ کر میجر آفتاب اقتدار پر قبضہ کر لے گا لیکن پھر اچانک انہوں نے رضا کاظم سے رابطے ختم کر دیے۔ انہیں کافی عرصے بعد پتہ چلا کہ اس منصوبے سے متعلق جنرل ضیا کو پتہ چل گیا تھا۔ ان تمام افسران کو گرفتار کر لیا گیا اور پانچ، پانچ سال کی سزائیں سنا دی گئیں۔
برگیڈیئر مستنصر بلا، ایک اور اسلامی انقلاب، 1995:
یہ واقعہ بینظیر بھٹو کے دوسرے دورِ اقتدار میں پیش آیا۔ فوج کے اندر حزب التحریر سے متاثر فوجی افسران کی ایک تعداد موجود تھی۔ حزب التحریر کا دنیا بھر میں اسلامی خلافت قائم کرنے کا منصوبہ ہی یہ ہے کہ مسلمان ممالک کی افواج کے اندر سے اچھے اور سچے مسلمان فوج کے سینیئر افسران کے خلاف بغاوت کر کے حکومتوں پر قبضے کریں۔ انہی میں سے ایک برگیڈیئر مستنصر بلا بھی تھا جس نے 1995 میں برگیڈیئر ظہیر عباسی اور مذہبی عالم دین قاری سیف اللہ کی مدد سے بینظیر بھٹو حکومت الٹنے کا منصوبہ بنایا۔ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ آرمی چیف عبدالوحید کاکڑ کو نکال کر وہ فوج کی کمان سنبھالیں گے اور پھر حکومت پر قبضہ کر لیں گے۔ لیکن فوجی انٹیلیجنس نے جنرل کاکڑ کو اس منصوبے سے آگاہ کر دیا اور یہ تمام افراد گرفتار ہو گئے۔ ان کو رقم اسامہ بن لادن کی جانب سے دی جا رہی تھی۔ ان کا ارادہ یہ تھا کہ بینظیر بھٹو کو قتل کیا جائے گا اور آرمی چیف کو ان کے عہدے سے علیحدہ کر دیا جائے گا۔
برگیڈیئر علی خان، حزب التحریر کا ایک اور ناکام وار، 2012:
مبینہ طور پر مارشل لا کی آخری ناکام کوشش جس کے بارے میں تاحال علم ہو سکا ہے وہ 2012 میں کی گئی۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی اس وقت فوج کے سربراہ تھے اور جنرل احمد شجاع پاشا آئی ایس آئی کے سربراہ۔ حزب التحریر سے تعلق رکھنے والے چند افسران کو ایک بار پھر ایک ’اسلامی انقلاب‘ سوجھا۔ ان میں برگیڈیئر علی خان اور چار دیگر فوجی افسران کو ملوث پایا گیا اور ایک فوجی عدالت نے برگیڈیئر علی خان، میجر سہیل اکبر، میجر جواد بصیر، میجر عنایت عزیز اور میجر افتخار کو قید و بند کی سزائیں سنائیں۔
https://nayadaur.tv/2020/07/fallen-horses-the-coup-attempts-that-failed-in-pakistan/