Get Alerts

دھاندلی سے مستفید ہوئی حکومتیں اس کا خاتمہ کر سکتی ہیں؟

دھاندلی سے مستفید ہوئی حکومتیں اس کا خاتمہ کر سکتی ہیں؟
پاکستان میں عام انتخابات کے بعد سے دھاندلی کے الزامات کی ایک تاریخ ہے۔ 1977 کے عام انتخابات کے دھاندلی کے الزامات اور تحریک کی وجہ سے ملک میں مارشل لا لگ گیا۔ اس کے بعد میں ہونے والے انتخابات میں بھی ہر ہارنے والی جماعت و فرد نے اپنی شکست تسلیم کرنے کے بجائے انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھائے۔ 2013 میں دھاندلی اور کمزور الیکشن کمیشن کے خلاف جتنی تحریک چلی ہے شاید ہی کسی جمہوری ملک میں صاف و شفاف انتخابات اور مضبوط الیکشن کمیشن کے لئے چلی ہو لیکن بدقسمتی سے الیکشن کمیشن کے خلاف شکایات اور انتخابات میں بے ضابطگیوں یا دھاندلی کے الزامات میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوا ہے۔

پاکستان میں موجودہ انتخابی صورتحال کچھ یوں ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ 2013 کے عام انتخا بات میں دھاندلی کے ساتھ ساتھ کمزور اور شاید کسی حد تک بے بس الیکشن کمیشن کا گلہ پاکستان کی تقر یباً ہر سیاسی جماعت نے کیا۔ تحریک انصاف کی جانب سے دھاندلی کے خلاف ایک لانگ مارچ نکالا گیا جو 126 روزہ دھرنے میں بدل گیا تو دوسری جانب اس وقت کی حکومت نے بھی پارلیمنٹ میں ایک انتخابی اصلاحاتی کمیٹی بنائی لیکن 2018 کے عام انتخابات بھی کئی سوالات چھوڑ گئے، خصوصاً اپوزیشن نے حکومت کے مینڈیٹ کو جعلی قرار دے کر شکست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔

اب اننتخابات ہارنے والا بڑے اطمینان سے دھاندلی کا الزام لگا کر سڑکوں پر نکل آتا ہے جب کہ جیتنے والا کہتا ہے کہ کوئی دھاندلی نہیں ہوئی بلکہ اس کی فتح عوامی مینڈیٹ کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔

سوال یہ ہے کہ یہ موجود صورتحال کب تک جاری رہے گی اور کب تک یوں ہمارا انتخابی نظام ایک مذاق بنا رہے گا۔ 2013 کے انتخابات پر بننے والے جوڈیشل کمیشن نے بھی یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ منظم دھاندلی تو نہیں ہوئی لیکن انتخابات میں بے ضابطگیاں بہت ہوئی ہیں، اور جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ میں بھی اتنخابی اصلاحات پر نہ صر ف زور دیا گیا بلکہ تجاویز بھی دی گئی تھیں۔ اس کے بعد 2018 کے الیکشن کے بعد بھی ایک کمیٹی بنائی گئی لیکن حکومت اور اپوزیشن کے درمیانی حائل سیاسی خلیج اتنی گہری ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ایک میز پر بیٹھنے کے لئے تیار ہی نہیں کہ اصلاحات کے ذریعے انتخابی قوانین میں ترامیم کر کے انتخابی نظام میں پائی جانے والی خرابیاں دور ہو سکیں اور الیکشن کمیشن کو مضبوط کیا جا سکے۔

ملک میں بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے جا رہے جو جمہوریت کی نرسری کہلاتے ہیں تو ان کا مقررہ مدت پر ہونا جمہوریت کے لئے لازم و ملزوم ہے لیکن ہمارے ملک میں جہاں عام انتخابات دس دفعہ ہوئے وہاں بلدیاتی انتخابات صرف پانچ دفعہ ہوئے وہ بھی تین سے چار مرتبہ فوجی دور حکومت میں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس طر ح دھاندلی اور الیکشن کمیشن کی بے بسی پر واویلا مچا اور جتنی شدت سے تحاریک چلیں، پارلیمان کی انتخابی اصلاحاتی کمیٹی بھی اسی تیزی سے کام ختم کر کے اصلاحات نافذ کرتی تاکہ ملک میں موجودہ " دھاندلی" بحران کا خاتمہ ہوتا لیکن ایسا نہ ہوا اور آج بھی حکومت و اپوزیشن آزاد کشمیر میں ہونے والے الیکشن میں دست و گریبان ہیں۔

اگر ہم دنیا کے باقی جمہوری ملکوں میں ہونے والے انتخابات پر نظر ڈالیں تو شاذ و نادر ہی دھاندلی کی آواز آتی ہے یا پھر الیکشن کمیشن کی طر ف انگلی اٹھتی ہے۔ امر یکہ میں ہر چار سال بعد صدارتی انتخابات ہوتے ہیں۔ پچھلی دو صدیوں میں صرف ایک یا دو بار کہ جب سپریم کورٹ کو مداخلت کرنی پڑی کے سوا کبھی بھی دھاندلی کا ذکر نہیں آیا۔ جیتنے والا حلف اٹھاتا ہے اور ہارنے والا جیتنے والے کو مبارکباد دیتا ہے۔

اسی طرح ہمسایہ ملک ہندوستان کو دیکھ لیں جہاں ہماری آبادی سے بھی کئی گنا زیادہ لو گ ووٹ ڈالتے ہیں اور وہاں کی سیاسی جماعتیں ہماری سیاسی جماعتوں سے تعداد اور جمہوری مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہیں لیکن کبھی بھی ہارنے والے نے دھاندلی کا اور جیتنے والے نے بےضابطگی کا فائدہ نہیں اٹھایا۔ اب وقت آ گیا ہے بلکہ وقت گزرتا جا رہا ہے کہ سنجیدگی سے تمام سیاسی جماعتیں (سیاسی جماعتوں کی اکثریت اس وقت پارلیمنٹ میں موجود ہے) پارلیمنٹ میں بیٹھ کر پارلیمانی کمیٹی جو کہ انتخابی اصلاحات پر کام کر رہی ہے، کو فعال بنائیں اور مؤثر اور جامع تجاویز دیں تاکہ انتخابی قوانین میں ترامیم ہوں اور الیکشن کمیشن کے بنیادی ڈھانچے میں بھی اگر تبدیلی لانی پڑے تو لائی جائے۔ ملک میں انتخابی نظام کو جدید اور مضبوط کر کے الیکشن کمیشن کو مضبوط کیا جا سکے۔

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اگر اسی طرح کے متنازعہ انتخابات مستقبل میں ہوئے تو ایسے انتخابات جمہوریت کو مضبوط نہیں بلک کمزور کریں گے اور عام آدمی کا اعتماد سیاسی نظام پر سے ختم ہو جائے گا (ضمنی انتخابات میں ٹرن آؤٹ کوئی زیادہ اچھا نہیں رہا)۔ اگر ملک میں صاف و شفاف انتخابات ہوئے تو لوگوں کاانتخابی نظام پر اور سیاسی جماعتوں کا الیکشن کمیشن پر اعتماد بڑھے گا جو کہ ہر صورت بڑھنا چاہیے۔ اسی سے ملک میں جمہوریت پروان چڑھے گی ورنہ عوام اس دھینگا مشتی ٹائپ مفادات پر مبنی جمہوریت سے لاتعلق ہو جائیں گے۔